دھماکے کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور نو زخمی ہوگئے. اے ایف پی فوٹو

کوئٹہ: سرکاری ذرائع کے مطابق، منگل کے روز ایک گاڑی میں دھماکہ اس وقت ہوا جب ایک بس اہل تشیع زائرین کو لے جارہی تھی۔ دھماکے کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور نو زخمی ہوگئے۔

 آر سی ڈی شاہراہ کے قریب پیش آنے والے اس حملے کی ذمہ داری جیش اسلام نے قبول کی ہے۔ ذرائع کے مطابق بس میں آگ لگنے کی وجہ سے  تین افراد جھلس گئے۔

 حکام کے مطابق، بس زائرین کو سرحدی علاقے تافتان سے کوئٹہ لے جارہی تھی  اور زائرین ایران کے مقدس مقامات کا دورہ کرکے لوٹ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کے گاڑی کوئٹہ سے تقریباً پینتیس کلومیٹر دور کھڑی تھی۔ جیسے ہی بس قریب آئی تو دھماکہ ہوگیا۔

 ذرائع کے مطابق، دھماکے کے بعد بس میں رکھے گیس سلنڈر پھٹنے کی وجہ سے بس میں آگ لگ گئی۔

 مستونگ کے ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ دھماکے میں بس کی صفائی ستھرائی پر معمور شخص سمیت تین افراد ہلاک ہوئے۔

 انہوں نے کہا کہ لیوی کے تین اہلکار، دو خواتین، تین بچے اور ڈرائیور زخمی ہوئے۔ لیوی کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق، لاشیں شناخت کے قابل نہیں ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ لیوی کے تین اہلکار دھماکے کی شدت کی وجہ سے زخمی ہوئے۔

 ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ دھماکہ خودکش حملہ ہوسکتا ہے تاہم حتمی وجوہات تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Mohammad jehangir Sep 19, 2012 09:53am
دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان،لشکر جھنگوی اور دوسری کالعدم جماعتیں اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔طالبان ایک رستا ہوا ناسور ہیں اور اس ناسور کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کیلیے سب سے بڑاخطرہ ہیں۔ اسلام امن،سلامتی،احترام انسانیت کامذہب ہے لیکن چندانتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر مسعود کوثرکہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ کبھی نہیں رہی اور شمالی وزیرستان اغواکاروں کا گڑھ ہے۔گورنر ہاﺅس پشاور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان سمیت پوری دنیا کا امن قبائلی علاقوں میں امن سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں ہونے والے ۸۰ فیصد دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے وزیرستان سے ملتے ہیں۔ طالبان کا یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزان ہو گیا ہے اور طالبان دائین بائیں صرف مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔طالبان انسان کہلانے کے بھی مستحق نہ ہیں۔ انتہاء پسندي اور خود کش حملے پاکستان کو غير مستحکم کرنيکي گھناؤني سازشوں کا تسلسل ہيں اور جو عناصر دين اسلام کو بدنام کرنے اور پاکستان کو غير مستحکم کرنے کيلئے بے گناہ شہريوں کو خاک و خون ميں نہلا رہے ہيں وہ انسانيت کے دشمن ہيں۔ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور تشدد آمیز مذہبی انتہا پسندی نے اس ملک کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنہوں نے ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھاہے ۔اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہدِ تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر ریاست مسلح عسکریت پسندوں کو اس بات کی اجازت دے دے کہ وہ درندگی کے ساتھ عوام پر اپنی خواہش مسلط کریں تو ایسی ریاست اپنی خودمختاری قائم نہیں رکھ سکتی .صلح جوئی کی پالیسی نے ملک کو پہلے ہی بھاری نقصان پہنچایا ہے جس کی قیمت ہم انسانی جانوں کی زیاں نیز معاشرے اور معیشت پر اس کے برےاثرات کی شکل میں ادا کر چکے ہیں . بم دھماکے کھلی بربریت ہیں اور دہشت گرد عناصر شہر میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ملک میں انتشار پیدا کررہے ہیں۔ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے.اسلام نے ایک ایک انسانی جان کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس کے نزدیک کسی ایک شخص کا بھی ناحق قتل گویا کہ پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسلامی تعلیم ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کی جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے۔ ارشاد باری ہے ‘‘ انسانی جان کو ہلاک نہ کرو، جسے خدا نے حرام قرار دیا ہے’’۔ (بنی اسرائیل :33) کسی انسان کی جان لینا اسلام کے نزدیک کتنا قابل گرفت عمل ہے، اس کا اندازہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث سے ہوتا ہے ، آپ نے فرمایا ‘‘ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا، وہ نماز ہے جس کے بارے میں باز پرس کی جائے گی او رحقوق العباد میں سب سے پہلے قتل کے دعووں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی انسانی جان کی ہلاکت کو عظیم گناہ کے ساتھ ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا کہ ‘‘ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا ، پھر کسی انسان کو ہلاک کرنا ہے، پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے ، پھر جھوٹ بولنا ہے’’۔ اس حدیث میں قتل کے گناہ کو شرک کے بعد بیان کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عظیم گناہ ہیں، ان میں کسی انسانی جان کو ہلاک کرنا سر فہرست ہے. انسانیت کے دشمن اپنے ہی مسلمان بھائیوں کونماز پڑھتے وقت بھی خود کش دھماکے کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں قتل کرر ہے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور بے گنا ہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں وہ مسلمان تو کجا، انسان کہلا نے کے مستحق نہیں ہیں۔ قرآنی آیات، احادیث نبوی اور آئمہ کرام کے استدلال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بے گناہ و معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اور ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف بلکہ روح اسلام کے خلاف گناہ عظیم ہے، کسی بھی عذر، بہانے یا وجہ سے ایسے عمل کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے۔ اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے. ..................................................... پڑہئیے گااقبال جہانگیر کا تازہ ترین بلاگ : لوئردیر میں دہشتگردی http://www.awazepakistan.wordpress.com
Syed Sep 19, 2012 10:05am
طالبان جیسے “شجرہ خبیثہ” کو خلق کرنے والی فورسز نے طالبان کے اجزائے ترکیبی میں اہم جزو “شیعہ دشمنی” رکھا ہے، گڈ طالبان، بیڈ طالبان، اینٹی پاکستان، پرو پاکستان۔۔۔ طالبان سب کے سب شیعہ دشمنی کے ایجنڈے پر اکٹھے نظر آتے ہیں۔ طالبان نوازی کی پالیسی کا سب سے زیادہ تاوان شیعہ قوم نے ادا کیا ہے، آخر کب تک اِس مبینہ “اِسٹریٹیجک ایسیٹس” کے نام پر ملک میں فرقہ واریت کا بازار گرم رکھا جائے گا۔۔۔؟ اِن مبینہ “اِسٹریٹیجک ایسیٹس” کی وجہ سے وہ کونسی آفت ہے جو پاکستان پر نہیں ٹوٹی، پاکستانی عوام آخر کب تک اِن غلط پالیسیوں کا خراج دیتی رہے گی۔۔۔ آخر کب تک؟
Syed Sep 19, 2012 10:24am
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔ چیف جسٹس آف پاکستان صاحب۔ آپ نے سُووموٹو ایکشن نہی لینا ہے مت لیں، آپ بھی آخر ایک انسان ہی تو ہیں، ہو سکتا ہے مجبور بھی ہوں۔۔۔؟ یہ سب تین عشروں سے اِسی طرح روزانہ مرنے والے بھلا کونسا آپ کے اپنے ہیں۔ آپ کا تو بس ارسلان سلامت رہے، اِن سب کیلئے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔۔۔