۔— فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان میں تئیس لاکھ اسی ہزار امیر لوگ ٹیکس ادا کرنے والوں کی فہرستوں میں شامل نہیں ہیں۔

یہ مال دار افراد صرف وہی ٹیکس ادا کرتے ہیں جن کی کسی بھی ادائیگی کی صورت میں موقع پر کٹوتی لازم ہے۔

ملک میں تین لاکھ لوگوں کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تو موجود ہیں تاہم ان میں سے صرف چودہ لاکھ نے ہی گزشتہ سال ٹیکس گوشوارے جمع کروائے تھے۔

مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق تئیس لاکھ اسّی ہزار لوگ محل نما گھروں میں رہتے ہیں، قیمتی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں، وقتاً فوقتاً غیر ملکی دورے کرتے ہیں، مختلف بنکوں میں اکاؤنٹ رکھنے کے ساتھ ساتھ بھاری یوٹیلٹی بل تو بھرتے ہیں لیکن انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے حاصل کردہ اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹیکس حکام ان امیر لوگوں کو ٹیکس دائرے میں لانے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔

دو ہزار ایک کا انکم ٹیکس آرڈیننس ملک بھر میں موجود نوّے انکم ٹیکس کمشنروں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ان افراد کی رجسٹریشن کریں جن کی آمدنی پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

پاکستان کا شماران ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انکم ٹیکس قوانین پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امداد اور قرض دینے والے عالمی ادارے اور ملک، پاکستان سے ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھانے کا مطالبہ کرتے نظر آ تے ہیں۔

تکلیف دہ امر یہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) ان عالمی اداروں سے ٹیکس اصلاحات کے لیے پہلے ہی ایک کروڑ تریپن لاکھ ڈالر لے چکا ہے۔ تاہم آٹھ سال سے جاری اصلاحاتی عمل کے باوجود صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں لائی جا سکی۔

نادار کی جانب سے چند ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کے باوجود، ملک بھر کے انیس ریجنل دفاتر میں تعینات ٹیکس حکام نے اس معاملے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

تفصیلات کے مطابق، غیر ملکی دورے کرنے والے سولہ لاکھ، گیارہ ہزار افراد نے ایک پیسہ بھی بطور انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔

اسی طرح 5٫84٫730 پاکستانیوں کے مقامی اور غیر ملکی بنکوں میں ایک سے زائد اکاؤنٹس ہونے کے باوجود، ان کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہی موجود نہیں ہے۔

ایف بی آر نے بینکوں کو ایک دن میں پچاس ہزار سے زائد رقم نکالنے والوں پر ٹیکس کاٹنے کا پابند تو کر رکھا ہے لیکن ان صارفین کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے کسی قسم کے نوٹس جاری نہیں کیے جاتے۔

ملک میں تقریباً چھپن ہزار افراد پوش علاقوں میں رہتے ہیں جب کہ بیس ہزار افراد کے پاس بیش قیمت گاڑیاں ہیں تاہم یہ لوگ انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔

ٹیکس حکام اسلام آباد، لاہور، پشاور، کراچی اور دوسرے بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت کی زمین خریدنے والوں کو تلاش کرنے اور ان سے انکم ٹیکس لینے میں بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھاتے۔

ملک میں 66٫736 انفرادی صارفین بھاری یوٹیلٹی بل تو ادا کرتے ہیں لیکن انکم ٹیکس نہیں۔

ممنوعہ اور غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے لائسنس رکھنے والے تیرہ ہزار سے زائد افراد کے پاس این ٹی این نہیں ہے۔

طب، انجینئرنگ، قانون اور چارٹرڈ اکاؤنٹینسی جیسے مہنگے شعبوں میں خدمات انجام دینے والے 25٫130 افراد بھی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

تاہم ان حقائق کے باجود، گزشتہ چند سالوں کے دوران ٹیکس کی وصولی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ایک سرکاری عہدے دار نے 'ڈان' کو بتایا کہ اس کا سبب روپے کی قدر میں کمی، ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح اورحکومتی اخراجات میں اضافہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں