coffin-670
فائل فوٹو --.

مُحرّم کی نو اور دس تاریخ کسی بڑے سانحے کے بغیر گذرجانے پر سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ ایّام تدبر کے اظہار کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اگر اس دوران شہریوں کی جان و مال کو کسی قسم کا خطرہ ہو تو پھر اس کا تدارک بھی ہونا چاہیے۔

کہا جاتا ہے کہ ان ایام میں دہشت گردوں نے مختلف مقامات پر تباہی پھیلانے اور بڑی تعداد میں قتل و غارت گری کا منصوبہ بنا رکھا تھا مگر بروقت ا اطلاع ملنے پر نہ صرف ان تخریبی اور دہشت گردی کارروائیوں کو ناکام بنادیا گیا بلکہ بڑی تعداد و مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی قبضے میں لے لیا گیا، جس سے وہ بوکھلا کر رہ گئے۔

اطلاعات کے مطابق کراچی کو سب سے بڑا خطرہ لاحق تھا جہاں پولیس نے بروقت کارروائی کرکے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی پکڑی تھی، جس سے یہ خطرہ ٹل گیا۔

اس طرح کے تدارکی اقدامات قابلِ تعریف ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ عام حالات میں بھی اس طرح کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے یا پھر یہ سب کچھ عاشور کے سبب کیے جانے والے سخت ترین حفاظتی اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتہائی چوکسی کے سبب ہی ممکن ہوسکا تھا۔

عاشور کے موقع پر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی بارہ ہلاکتوں کی بات دوسری  ہے۔ نویں محرم کو سات اور عاشور کو پانچ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اسے کوئی بڑا المیہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عقائد سے منسلک تشدد ہے جو سماج کی بے حسی اور عدم برداشت کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن کیا کسی نے ان ایام کے دوران پورے ملک میں خصوصی حفاظتی اقدامات پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب کتاب کیا ہے؟

تقریباً دو تین روز کے لیے دفاتر اور اسکول بند رہے تھے، رہے لوگ توبڑی تعداد خوف کے باعث گھروں تک ہی محدود ہو کر رہ چکی تھی۔

تمام صوبوں کے پولیس سربراہوں نے خصوصی کنٹرول اینڈ مانیٹرنگ سیل قائم کردیے تھے۔ اس ضمن میں صرف پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کو روکنے کے لیے دس لاکھ پولیس افسران و اہلکار تعینات کیے تھے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس طرح کے اقدامات میں حصہ لیا، کامیابی پر سراہے جانے کے مستحق ہیں۔

حتیٰ کہ وہ بھی جو موبائل فون کی بندش اور ڈبل سواری پر پابندی کے باعث اکثر اس دوران وزیرِ داخلہ پر تنقید کرتے رہے، انہیں پابندیوں کے سبب جس پریشانی سے گذرنا پڑا، خاص کر موبائل فون کے لاکھوں صارفین، وہ بھی بخیر و خوبی اس اہم دن کے گذرجانے پر سراہنے کے کے لائق ہیں۔

ان سب کے باعث ملک کی ایک بڑی شیعہ اکثریت کو اپنے عقائد کے مطابق اہم ترین مذہبی نوعیت کے ایّام کو کسی مجلس یا جلوس میں بنا کسی بم دھماکے یا تخریبی کارروائی کے منانے کا موقعہ میسر آیا۔

دہشت گردوں نے جس طرح پاکستانی ریاست کو پریشان کرکے انہیں خود سے دور رکھنے کے لیے بھاری اخراجات پر مجبور کیا، اسے دیکھ کر تو وہ خود آستین چڑھا کر ہنستے ہوں گے۔

جب وہ انٹیلی جنس ایجنسوں تک صرف اپنے سرگرم رہنے کی سادہ سی دھمکی پہنچا کر پورے ملک کو مفلوج کرسکتے ہیں تو پھر انہیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے خودکش بمباروں کی جانیں اور دھماکا خیز مواد برباد کرتے؟

اس وقت دو سوالات نہایت توجہ کے طلب گار ہیں۔ پہلا یہ کہ عاشور کے ایّام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جو چوکسی نظر آئی کیا اسے کسی خاص مدت تک برقرار رکھا جاسکتا ہے؟

اگر جواب نفی میں ہے تو پھر شک پیدا ہوتا ہے کہ عام حالات میں دہشت گردی کے واقعات دھیمے نہ پڑنے کے اسباب دیگر ہیں۔

سچ ہے کہ بڑے بڑے  اجتماعات انہیں اپنے نظریات کے اظہار اور اس کے نفاذ کے لیے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں تاہم دہشت گردوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ طویل عرصے تک اپنے ہتھیاروں کو بنا استعمال کے پڑا رہنے دیں گے۔

خظرناک ہتھیار رکھنے والے یہ دہشت گرد کبھی بھی اپنے سارے انڈے ایک باسکٹ میں رکھ کر ان کی نقل و حرکت نہیں کرتے کہ آسانی سے پکڑے اور کچلے جاسکیں۔

دوسرا یہ کہ کیا دہشت گردی کے اس خطرے سے مستقل طور پر نمٹنے کے لیے قابلِ برداشت حکمتِ عملی کی ضرورت ہے؟

یہ ضرور ہوا کہ عاشور کے موقع پر سخت اقدامات کے بدولت دہشت گردوں کے منصوبے ناکام ہوئے، جس پر وہ ضرور سیخ پا ہوں گے، یوں وہ مزید خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، تاہم عاشور پر امن و امان کے لائقِ تحسین اور کامیاب اقدامات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے جن کو شکست دے دی گئی ہے۔

گذشتہ چند برسوں سے ملک میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف تشدد کی لہر میں بدستور اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر اب تک ہم نے اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کسی حکمتِ عملی کے بارے میں نہ تو کچھ سنا اور نہ ہی دیکھا ہے۔

سادہ اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لیڈر، چاہے وہ حکومت کے اندر بیٹھے ہوں یا پھر باہر، وہ شیعہ کمیونٹی کے حقوق کا دفاع یا ان کے قتل کی مذمت کرنے سے خوف زدہ نظر آتے ہیں، حالانکہ جو یہ گھناؤنا فعل انجام دیتے ہیں، وہ مذمت کے ہی مستحق ہیں۔

جیسا کہ خود میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا، ان خیالات کی تصدیق عاشور سے قبل صرف چار دن کے اندر دو درجن سے زائد شیعوں کی ہلاکتوں پر آنے والے ردِ عمل سے کی جاسکتی ہے۔

صدر اور وزیر اعظم سمیت زیادہ تر رہنماؤں نے بم دھماکوں کی مذمت کی، مرحومین کے لیے خدا سے دعائے مغفرت کی، متاثرہ خاندانوں سے یہ صدمہ برداشت کرنے کے لیے ہمدردی کا اظہار بھی ہوا مگر اس بہیمانہ قتل و غارت کے سلسلے کو روکنے کے لیے با معنیٰ اقدامات سے خالی یہ ایک دکھاوا تھا۔

جماعتِ اسلامی کے سربراہ نے بھی میڈیا سے گفتگو میں ایسا ہی کچھ کہا اور پھر دیکھا گیا کہ وہ  فوراً ہی انتخابی اتحاد کے منصوبے پر بولنے لگے۔

متعدد اہم شخصیات نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے نامعلوم  'دشمنوں' کو ذمہ دار قرار دیا تو بعض نے ان ہلاکتوں کے پیچھے 'غیر ملکی ہاتھ' پر الزام دھر دیا۔

مجلسِ وحدت المسلمین نے شیعوں کے قتل کے خلاف متفقہ فتویٰ حاصل کرنے کے لیے تمام علما کا اجلاس بلانے کی درخواست کی مگر ان کی بات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔

مختلف مذہبی جماعتوں اور دھڑوں بشمول دفاعِ پاکستان کونسل کے جغادری رہ نماؤں نے اس معاملے پر خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے شیعوں کی ہلاکت کے واقعات کا دو مرتبہ حوالہ دیا مگر اس تناظر میں وہ بھی اس سے آگے کچھ نہیں کہہ سکے کہ قاتل اور مقتولین دونوں ہی کلمہ گو ہیں۔

چاہے شیعوں کا قتل ہو یا کسی دوسرے مذہبی گروہ سے منسلک افراد کا، یہ ناقابلِ معافی جرم ہے، جس کی صرف مذمت کردینا ہی کافی نہیں۔

جس بیان کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے سڑک حادثے میں پچیس افراد کی ہلاکت یا پھر کسی گودام میں آتشزدگی پر جاری کردیا جاتا ہے۔

ان میں ایسے کوئی اشارے نہیں کہ جن لوگوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے بیان دیا جارہا ہے، یہ وہ معصوم شہری تھے جنہیں اُن کے عقائد کی بنیاد پر مارا گیا، حالانکہ اس حقیقت کا ہمیں شدت سے اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ بم دھماکوں کی مذمت تو کی جاتی ہے مگر اُن کے ذمہ داروں کا نام نہیں لیا جاتا۔

فرقہ واریت کا نشانہ بننے والوں کی شناخت بطور شیعہ ظاہر نہیں کی جاتی۔ تصور ہے کہ مقتولین اور قاتلوں کی شناخت ظاہر نہ کرنے کا مقصد کشیدگی کو بڑھنے سے روکنا ہوتا ہے مگر یہ خیال بڑا احمقانہ ہے۔ سب لوگ بات جانتے ہیں کہ کون مارا گیا اور کس نے معصوموں کو، اُن کے اپنی ہی خون میں نہلادیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ وم تمام لوگ جوکوئی نہ کوئی اثر یا اختیا رکھتے ہیں، بین العقائد امن کو لاحق خطرات تسلیم کرنے کو ہی تیار نظر نہیں آتے۔

مقدس مبلغین کے لبادے میں نفرت کا پرچار کرنے والے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرتے پھر رہے ہیں کہ کون  مسلمان ہے اور کون نہیں۔

انہیں کس نے حق دیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے کی بنیاد پرلوگوں کی زندگی و موت کا فیصلہ کرتے پھریں مگر وہ ایسا کررہے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں لوگوں کی جان و مال کی سلامتی کو درپیش خطرات کے سدِباب کے  لیے ریاست خاطر خواہ اقدام کرتی نظر نہیں آتی۔

اس ملک میں تب تک نہ تو امن قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کےشہریوں کے لیے کوئی جائے پناہ ہوسکتی ہے، جب تک کہ نفرت کے اس عفریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن نہ کردیا جائے۔

تبصرے (2) بند ہیں

انور امجد Dec 18, 2012 06:11am
معصوم لوگوں کا قتل چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو یا نسل وغیرہ کے نام پر ہو ایک قابل سزا جرم ہے۔ اور اس کو روکنے کا طریقہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مضبوط گرفت ہے۔ اگر مجرم کو پتہ ہو کہ وہ جرم کر کے بچ نہیں سکے گا تو وہ جرم نہیں کرے گا۔ ہماری پولیس اور عدالتی نظام اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اوّل تو مجرم پکڑے ہی نہیں جاتے اور کوئی ایک آدھ پکڑا بھی جائے تو عدالت سے بری ہو جاتا یے۔ اس کمزوری کی سب سے بڑی وجہ سیاسی مصلحت ہے۔ حکومت کے ساتھ شامل پارٹیوں کو قتل اور غنڈہ گردی کرنے کا لائسینس مل جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ تشدّد بھی کسی اجتماع یا فتوے سے حل نہیں ہو گا۔ اس کے لئے سیکیورٹی اداروں کو مضبوط بنانا اور سیاسی دباؤ سے پاک کرنا ہو گا۔
حسین عبد اللہ Dec 18, 2012 04:40pm
رحمان صاحب آپ کا شکریہ کم ازکم کھلے لفظوں حقیقت کو بیان کرنے کی جرات کی ہے اصل میں کرسی اقتدار ہر چیز پر غالب آجاتی ہے یہ ہمارے سیاسی لیڈروں کا المیہ ہے اور یہی ھم سب کا المیہ ہے لیکن ھم مایوس نہیں ہیں ہمیں مکمل امید ہے کہ آخر کار وہ وقت آئے گا جب سچائی حکمران ہوگی جب بد عنوانی ختم ہوگی