فائل فوٹو۔۔۔

 سندھ بھر میں پھیلی ہوئی خسرہ کی وبا نہایت تشویش کا باعث ہے۔

حکومتِ سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں اب تک خسرہ کے سبب پچاس بچوں کی اموات واقع ہوئی ہیں تاہم منگل کو بعض ذرائع ابلاغ کی اطلاعات میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جتنی کہ حکومت نے بتائی ہے۔

سن دو ہزار بارہ کے دوران صرف سندھ میں خسرہ کے باعث دو سو بچوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

  کمسن بچوں پر نہایت تیزی سے حملہ آور ہونے والی یہ بیماری خاص کر ان بچوں کے لیے تو اور بھی خطرناک ہے جو دو بار پہلے اس کی لپیٹ میں آچکے ہوں یا خوراک کی کمی سے جسمانی طور پر کمزوری کا شکار ہوں۔

متعدد ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ موثر اور باقاعدہ امیونائزیشن پروگرام کا فقدان وبا کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب ہے۔

بعض سینئر ڈاکٹروں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی میں صرف پچپن فیصد بچوں کو خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین دی گئی۔

اب اگر یہ صورتِ حال کراچی میٹروپولیٹن سٹی کی ہے تو پھر یہ تصور کرنا قطعی دشوار نہیں کہ چھوٹے قصبوں اور شہروں میں یہ صورتِ حال کتنی خراب ہوگی۔

غذائی قلت کا شکار بچے نہ صرف خسرہ جیسی مہلک وبا بلکہ نمونیہ اور اسہال کا با آسانی شکار بن جاتے ہیں بلکہ یہ ان کی زندگی کے لیے دیگر بچوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔

سرد موسم نے بچوں کو وبا کے خطرے کی طرف مزید دھکیل دیا ہے۔

مثالی طور پر تو یہ ہونا چاہیے کہ وبائی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے  کسی بھی علاقے کے کم ازکم نوّے فیصد بچوں کو بچاؤ کی ویکسین دینی چاہیے۔

تاہم بعض ڈاکٹر اب تک حکومت کے اس دعوے کو مشکوک سمجھتے ہوئے تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ  مطمئن کُن حد تک بچوں کی شرح فیصد کو وبائی امراض سے بچاؤ کی ویکسین دی جاچکی ہے۔

ان کا شک بے وجہ نہیں۔ اگر حفاظتی ٹیکوں یا ویکسین کی مہم کامیابی سے مکمل کی گئی ہوتی تو پھر اتنی بڑی تعداد میں وبا سے ہلاکتیں نہیں ہوسکتی تھیں۔

تمام متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں یا ویکسین کی مہم فوری شروع کی جانی چاہیے۔

 ساتھ ہی ریاست بڑے پیمانے پر لوگوں کو ویکسین کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے مہم چلائے، بالخصوص ایسے والدین پر اس کی اہمیت اُجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے جن کے بچوں کی عمریں نو سے پندرہ ماہ کے درمیان ہوں۔

دوسری طرف یہ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کوویکسین فراہم کرانے کے لیے اپنا کردار بھی نبھائیں۔

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ بعض والدین نے پولیو کے خلاف پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر یا توہم پرستی پر مبنی اپنے عقائد کے سبب بچوں کو ویکسین دینے سے انکار بھی کیا ہے۔

یہاں پر کمیونٹی کے بڑوں اورعلما پر نمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو وبائی امراض کی ویکسین دینے سے روکنے کے خلاف مداخلت کریں اور اپنے زیرِ اثر لوگوں پر اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ اس عمل میں شریک بھی ہوں۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ پولیو مہم اپنی نوعیت کے لحاظ سے ریاست کی بھرپور توجہ کی طلب گار ہے تاہم خطرے کی نوعیت کے پیشِ نظر، بچوں کو وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے دیگر ویکسین پروگرام کو کسی طور نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں