فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

2013 میں پاکستان کو جس اہم ترین چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے 65 سالہ پاکستانی قوم کی اس اہلیت کا امتحان کہ وہ قابل اعتماد عام انتخابات کو یقینی بنائے اور قومی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹیوں / اتحاد کو اقتدار معمول کے مطابق منتقل کرد ے -

یہ امر شبہ سے بالاتر ہے کہ اقتدار کو اسی سال منتقل ہونا ہے لیکن جس بات کی ضمانت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اقتدار اسی کے حوالے کیا جائیگا جو جیت سے ہمکنار ہو- اس کی ضرورت اس لئے محسوس کی جا رہی ہے کہ سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں میں دو ممکنہ امکانات پر کھلے عام بحث ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں انتخابی سلسلہ عمل یا تو ختم ہو سکتا ہے یا پھر انہیں التوا میں ڈالا جا سکتا ہے-

پہلا منظر نامہ کچھ اس طرح کا ہے: امن و امان کی صورت حال مسلسل بدتر ہوتی جائیگی اور عوام میں بجلی / گیس / پانی کی قلت نیز دیگر معاشی مشکلات کے نتیجے میں بے چینی مزید بڑھتی جائیگی اور نگران وزیراعظم سپریم کورٹ سے درخوا ست کرینگے کہ انتخابات ملتوی کردئے جائیں اور بنگلہ دیش کے طرزکی عارضی حکومت قائم کرنے کی اجازت دی جائے اور کورٹ انکی درخوست منظورکرلیگی - نتیجہ: 2013 میں انتخابات نہیں ہونگے-

یہ نظریہ بے بنیاد ہے گو کہ ناممکن نہیں- عین ممکن ہے کہ نگران وزیر اعظم طاقتور، جمہور دشمن قوتوں کے دباؤ میں آجائے جنکا یہ مشورہ کہ انتخابات ملتوی کر دئے جائیں قابل قبول زمینی حقائق پر مبنی نہ ہو- یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نگران وزیر اعظم کو زحمت نہ دیں - ایسے بہت سے کھلاڑی میدان میں موجود ہیں.

جنہوں نے عوامی مفاد کے مقدموں کو ہنسی مذاق بنا رکھا ہے- ان میں سے کسی کو بھی یا کسی بھی شہری کو اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ عدلیہ کی مداخلت حاصل کرنے کی کوشش کرے-

لیکن یہ نظریہ بس یہں پر دم توڑ دیتا ہے-

اس بات سے قطع نظرکہ عدلیہ کی براہ راست فعالیت کے نقاد خواہ کچھ بھی کہیں یہ بات بعید ازامکان ہے کہ عدلیہ غیر جمہوری قوتوں کے جال میں پھنس جائیگی-

عدالت عظمیٰ نے وقتا فوقتا اپنے دائرہ اختیار سے آگے بڑھتے ہوئے ریاستی اداروں سے بھلے ہی بازپرس کی ہو لیکن وہ عوام کو ان کے سب سے اہم بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے حکمرانوں کو منتخب کریں- حکمران اچھے ہیں یا برے اس کا کسی سے کوئی تعلق نہیں بشرطیکہ انتخابات قانون کے مطابق منعقد ہوئے ہوں-

سیاسی معاملات میں عدلیہ کو مداخلت کرنے کی دعوت دینا جو صریحا اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، غلط ہے- علاوہ ازیں ایسا نظر نہیں آتا کہ مستقبل قریب میں کوئی بھی عدالت اپنے اس عہد و پیمان سے دست  بردار ہو سکتی ہے کہ وہ ماورائے جمہوریت اقدامات کی مزاحمت نہیں کریگی خواہ وہ پاکستانی طرز کی فوجی حکومت ہو یا بنگلہ دیش کے طرز کی، دونوں ہی نظا م حکومت قطعی طور پر ناکام ہو چکے ہیں-

دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ شدّت پسندوں کی تنظیمیں جنہوں نے پاکستان کے جمہوری تجربے کو نیست و نابود کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے اور وہ ان تمام عناصر کو ہلاک کر دینے کے درپے ہیں جو اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں انتہا درجے کا امن و امان کا ایسا مسئلہ کھڑا کر دینگے کہ انتخابات کا انعقاد ناممکن ہو جائیگا-

اس خطرے کو سرسری طور پر نہیں لیا جاسکتا- ریاستی اداروں، سیکوریٹی کے عملے اور جمہوریت کے داعی افراد پر پرتشدد حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس میں بشیر بلور سے لیکر پشاور کے قریب لیویز کے اکیس اہلکاروں کا قتل شامل ہے- انتخابات تک بلکہ اس کے بعد بھی ان حملوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے-

ان حالات میں جمہوری عمل کوآگے بڑھانے کی کوشش اس وقت تک بار آور نہیں ہوسکتی جبتک کہ سال رواں میں انتخابات منعقد کرنے کی ضرورت پر وسیع اتفاق رائے پیدا نہ کیا جائے- پاکستان کو ایک جدید جمہوری ریاست بنانے کے فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے یہ انتخابات ضروری ہیں- جب جب بھی اس عمل میں رکاوٹ پڑی ہے ریاست اور عوام دونوں ہی کو شدید نقصانات پہنچے ہیں- اب پاکستان اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ وہ دوبارہ آمریت کا  متحمل نہیں ہو سکتا-

آج جمہوری نظام سے انحراف اس سے کہیں بڑا خطرہ ثابت  ہوگا جو پہلے ہوا کرتا تھا کیونکہ آج کا شہری زیادہ  باشعور ہے، میڈیا بڑی حد تک آزاد ہے اور ایک پر اعتماد عدلیہ جمہوری نظام حکومت کو کہیں بہتر ماحول فراہم کرنے کی یقیں دہانی کر چکی ہے جو اسکی بقا اور دفاع کے ضامن ہیں، جو اس سے پہلے اسے کبھی حاصل نہیں تھا-

آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو پارٹی / اتحاد  انتخابات کے بعد اکثریت حاصل کریگی وہ اس قابل نہیں ہوگی کہ اپنی مرضی چلاسکے خواہ وہ کتنی ہی بد عنوان کیوں نہ ہو- اگر اس نظام کو اس مرحلے پرکمزور کردیا گیا تو ریاست کئی دہائی پیچھے دھکیل دی جائیگی اور جمہوریت کے سلسلہ عمل کو ازسرنو شروع کرنا پڑیگا- جمہوریت کی کمزوریوں سے سب ہی واقف ہیں خواہ وہ پاکستان میں ہو، جنوبی ایشیا میں ہو یا مسلمان ملکوں میں، بلکہ ان ملکوں میں بھی جہاں یہ نظام جڑ پکڑ چکا ہے-

ایک نامکمل جمہوریت کا متبادل اس سے بھی برا ہوگا کیونکہ نہ تو فوجی آمریت نہ ہی مذہبی ریاست پاکستان جیسے کثیر القومی وفاق کے مطالبات کو پورا کر سکتی ہے، اور اس کی بقا صرف جمہوریت ہی میں ممکن ہے-

ضروری ہے کہ وہ تمام جماعتیں جو آنے والے انتخابات میں حصّہ لینے کا منصوبہ بنا رہی ہیں اس نظریے کی تائید کریں- کوئی بھی جماعت جو جمہوری نظریات کی حمایت نہیں کرتی قانون ساز اسمبلیوں میں نشستیں حاصل کرنے کا اخلاقی جواز نہیں رکھتی- اس سے منتقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیاں جو تشدد پسندوں کی ہٹ لسٹ میں شامل نہیں ہیں، معقولیت سے کام لیتے ہوئے اس بات کا اعلان کریں کہ وہ جمہوریت میں یقیں رکھتی ہیں- اگر یہ جماعتیں تشدد پسندوں کی طرف سے ہلاک کئے جانے والے رہنماؤں اور کارکنوں پر خاموشی اختیار کرتی ہیں یا محض ہلاک شدگان کی فاتحہ خوانی پر اکتفا کرتی ہیں تو ان پر منافقت کا الزام لگ سکتا ہے-

تشددپسندوں کے خطرے سے اس صورت میں نمٹا جاسکتا ہے کہ جہاں آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی ذمہ داری ہے وہاں سیاسی پارٹیاں اور عوام بھی بڑی حد تک اس کیلئے ذمہ دار ہیں- صرف انتخابات میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت ہی انتہاپسندوں کو اپنے مذموم منصبوں کو عملی جامہ پہنانے سے باز رکھ سکتی ہیں-

ای سی پی کے لئے مناسب یہی ہوگا کہ وہ کسی بھی ریاستی ادارے کے مقابلے میں عوام پر زیادہ بھروسہ کرے- یہ بات کسی کیلئے بھی باعث حیرت نہیں تھی کہ آرمی چیف نے انتخابات کے سلسلہ عمل میں تعاون کی یقیں دہانی کرائی البتہ حیرت اس بات پر تھی کہ چیف الیکشن کمشنر نے ان سے استدعا کی-

کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح فوج سے منصفانہ انتخابات کی ضمانت حاصل کرنا بلا جواز ہے- اس سے تو محض یہ توقع کی جانی چاہئے کہ وہ انتخابی سلسلہ عمل میں مداخلت نہیں کریگی - امن عامہ کی خا طر فوج سے مدد لی جاسکتی ہے لیکن وہ بھی کچھ فاصلے سے - پولنگ سٹیشن کے اندر فوجیوں / رینجرز کی موجودگی کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ ووٹ دینے کی آزادی کے ضابطے کے خلاف ہوگا - جہاں تک سیکورٹی کا مسئلہ ہے تو ای سی پی سمیت سول انتظامیہ مسلح افواج کو ہمیشہ طلب کر سکتی ہے -

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آنے والے انتخابات میں سرکاری اہلکاران اور عوام دونوں ہی معتدل رویہ اپنائیں - منصفانہ انتخابات کا مقصد حقیقت پسندی پر مبنی ہونا چاہئے - مثالی انتخابات کا منعقد ہونا ابھی دور کی بات ہے اور ہمارا مطمح نظر یہی ہونا چاہئے کہ معقول حد تک منصفانہ انتخابات ہوں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ درمیانہ درجے کے وسائل رکھنے والے امیدواروں کو یکساں مواقع حاصل ہوں - اسی طرح ، اس بار جو لوگ منتخب ہونگے وہ ضروری نہیں کہ اپنی اہلیت اور راست بازی کی بنیاد پر عوام کی توقعات پر پورا اتریں کیونکہ اس کیلئے ، یعنی سماجی انقلاب کیلئے سازگار حالات ابھی تک موجود نہیں ہیں -

آخری بات: گزشتہ ہفتے کراچی میں اسٹیڈیم کے قریب ایک سفید دیوار پر کئی گز لمبا ایک نعرہ نظر آیا :"ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے (صرف) الطاف!" اس کی توضیح صرف دو طرح کی جا سکتی ہے؛

1۔ ہمیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ہمیں صرف ایک رہنما چاہئے، الطاف کا بیان

2۔ ہمیں منزل / مقصد نہیں چاہئے، ہمیں ایک رہنما چاہئے صرف الطاف! -- تو یہ ہے جمہوریت پسندی؟


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

حسین عبد اللہ Jan 08, 2013 02:19pm
موجودہ طریقہ انتخابات سے تو جو چیز سامنے آئے گی بقول اقبال وہ دوسو گدھوں کی سوچ ہوگی جوکبھی انسانی نہیں بن سکتی اقبال اپنے فارسی شعر میں کہتے ہیں گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارشو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید اس طرز انتخاب میں ووٹ گنے جاتے ہیں خریدے جاتے ہیں بالکل گدھوں کی طرح چند خاندانوں نے باری باری لگائی ہو ئی ہے