فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

حالیہ چند ہفتوں کے دوران داخلی معاملات کے منظر نامے پر کشیدگی کے بادل چھائے رہنے کے باوجود، حالات پاکستان کے پالیسی سازوں اور معاشرے کے باخبر حلقوں کو کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی سنگینگی کا نوٹس لینے سے نہیں روک سکے۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے، جس میں فوجیوں کی جانوں بھی زیاں ہوا، اس کی وجہ کیا بنی تھی، یہ اب تک غیر واضح ہے۔

مزیدِ برآں، ہندوستان کے ایک فوجی کا سرقلم کیے جانے کی اطلاعات کے بعدان کا غم وغصّہ سمجھ میں آتا ہے۔

کیا دونوں جانب سے اس واقعے کی تحقیات کے لیے طریقہ کار متعین کرنے میں ناکامی پر کسی ایک کو بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے؟

ہندوستانی قیادت کے فوری ردِ عمل اور بالخصوص وزیراعظم من موہن سنگھ کی طرف سے اس معاملے پر بالکل واضح اور سخت بیانات سامنے آنے پر، ظاہر ہے کہ پاکستان کو تشویش ہے۔ وزیراعظم ہندوستان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات انتہائی بدترین سطح پر ہیں۔

خوش قسمتی سے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ، تعلقات میں ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کی کوششش کررہے ہیں تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

ایسے میں جس بات نے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کیا، وہ ہندوستان کی طرف سے سرحد پر بزرگ شہریوں کو ہندوستانی ویزا جاری کرنے کی پالیسی معطل کردینا ہے، جو کہ مکمل طور پر غیر متوقع فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کا جواز بھی نہیں بنتا تھا۔

گذشتہ کئی برسوں سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ویزا پالیسی میں نرمی کی تحریک جاری تھی اور ویزا جاری کرنے کے نئے نظام کا دونوں طرف کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا تھا۔ اس فیصلے سے تو یہی لگ رہا ھے کہ دوستی کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔

تاہم تاثر دیا گیا کہ پالیسی میں کسی حد تک کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں اور وضاحت یہ پیش کی گئی کہ ان پر عمل درآمد کے لیے کچھ تیاری کرنی ہے، جس کے لیے وقت درکار ہے۔ جس کے باعث سرحد پر ویزا جاری کرنے کا عمل معطل کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ یہی بات ہو اورنئے نظام کے تحت ویزوں کے اجرا کا تعطل مختصر مدت کے لیے ہی ہو۔

مزید تشویش کی بات نفرت پر مبنی وہ تحریک ہے جو ہندوستان کی مذہبی تنظیموں کی جانب سے، شیو سینا کے نئے سربراہ کے قیادت میں چلائی جارہی ہے۔ وہ خود کو حال ہی میں دنیا سے رخصت ہونے والے اپنے پیش رو سے زیادہ مشکل ساز رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

پاکستان کی ہاکی ٹیم کو کھیلے بنا ہی واپس بھیج دیا گیا؛ پاکستان وومن کرکٹ ٹیم کے میچ کا مقام ممبئی سے دوسری جگہ تبدیل کردیا گیا؛ ایک پاکستانی اداکار کو فوراً واپس لوٹنا پڑا؛ تھیٹر فیسٹیول میں پاکستانی پرفامرز کو ڈرامہ اسٹیج کرنے کی اجازت نہیں دی گی؛ اجوکا تھیٹر کو جے پور میں منٹو کے افسانے پر مبنی ڈراما پیش کرنا تھا، جسے منسوخ کردیا گیا۔

تاہم دہلی میں اس کے دو کھیل پیش کرنے کی اجازت دے کر ہندوستانی معاشرے نے اپنی قابلِ قدر فہم کا ثبوت دیا ہے۔

ہندوستان میں پیش آنے والے ان واقعات کو بچوں کی غلطی قرار دے کر صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ شدت پسند ہندو تنظیموں کی کوشش ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آرٹ، اسپورٹس، کلچر، سفری سہولتوں اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کی پیش رفت کو تباہ کردیا جائے۔

یہ تنظیمیں اور مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ان کی ہمدرد سیاسی جماعتیں کئی برس سے یہ سب کچھ کرنے کی سخت کوششوں میں مصروف تھیں۔

انتہا پسندوں کی ان مذموم کوششوں کی بیخ کنی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کلچر کے شعبے میں دو طرفہ تعاون میں مزید اضافہ کردیں۔

اسلام آباد اور دہلی کو آنے والے دنوں میں انتخابات کا سامنا ہے اور دونوں ہی اینٹی سیکولرازم اور اینٹی ڈیموکریسی فورسز کی طرف سے درپیش چیلنجوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے جو کچھ بچا ہے، اسے کس طرح ان مجرموں اور خود ستائشی کے پروردہ لوگوں کے سامنے نوٹوں سے بھرے تھیلے پھینک کر بچایا جاسکتا ہے۔

ہندوستان کی جمہوریت زیادہ لچکیلی ہے اور پاکستان میں اس جمہوریت کا تجربہ بہت کم ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کہ نئی دہلی کی سرکار سخت گیر انتہا پسندوں کے سامنے جمہوری سیاست اور سیکولر ازم کو ڈھیر کردے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو متعدد ناگزیر وجوہات کی بنا پر، دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے لڑائی موت اور زندگی کا معاملہ بن چکا ہے۔ ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آئین پر ان کے حملے کو روکنے کے لیے تمام قوتیں متحد ہو کر ناقابلِ تسخیر دفاعی دیوار بن جائیں۔

حال ہی میں ایسے اشارے ملے تھے جن کے مطابق ہندوستانی سیاستدان اور خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام کو لاحق خطرات محسوس کررہے تھے اور اب خود ان کے ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کو لاحق یہی خطرات مضبوط صورت میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

اسی طرح، حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عام لوگوں کے مذہبی جذبات کی حمایت حاصل کرکے یہ قوتیں اپنے آپ کو مضبوط بنانے اور پھیلانے کی کوشش کررہی ہیں۔

ظاہر ہے کہ ان قوتوں کے جو مقاصد یا کارروائیاں ہیں، ان پر بحث کرنے یا انہیں برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ صورتِ حال دونوں ملکوں کی عوام کے لیے خطرناک ہے۔ انہیں اس کا اِدراک کرتے ہوئے، اپنے اپنے ہاں ان کے خلاف منظم کوششوں کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت جب کہ پاکستان کے لیے یہ مسئلہ نہایت سنگین ہوچکا، اسلام آباد کو بہر حال یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمسایہ ہندوستان کے ساتھ باہمی منفعت کے دو طرفہ تعلقات اور اقتصادی و سیاسی شعبوں میں مثبت تعاون خود اس کی اپنی ترقی، استحکام اور بقا کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔۔

اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ حال ہی میں فوج کے سربراہ کی طرف سے کیے گئے اس اشارے پر آگے بڑھیں، جس کے باعث خطرات کی فہرست میں فوج کی ترجیحات تبدیل ہوئیں اور اب ان کے مطابق پاکستان کی سلامتی کو سب سے زیادہ خطرات مشرقی اور جنوبی سرحدوں سے نہیں بلکہ ملک کے اندر شمال مغرب سے ہیں۔

بہتر ہوگا کہ بہت جلد عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور ہندوستان کے ساتھ سرحدی امن کی فضا بہتر بنا کر وہاں تعینات فوجیوں کی بڑی تعداد واپس بلائی جائے۔

وقت آگیا ہے کہ اب ہندوستان اور پاکستان دونوں اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ ان کی غلط حکمتِ عملیوں اور اقدامات سے کس قدر نقصان ہوا ہے۔ انہیں اب اپنے فوجی نظریات، تحفظات اور حکمتِ عملیوں کو از سرِ نو ترتیب دے کر دفاعی خدشات کے جوابات تلاش کرنا چاہئیں، جو جنوبی ایشیا کی سرحدوں کے تناظر میں ہوں۔

بدقسمتی سے مستقبلِ قریب میں ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہندوستان اور پاکستان کو اعتماد سازی اور خیر سگالی کی فضا کے قیام کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں، اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنی دفاعی حکمتِ عملی پر از سرِ نو غور کے لیے تاخیر کا مظاہرہ کرے۔

یہ تو بہت عرصہ قبل ہی ظاہر ہوچکا تھا کہ پاکستان اسلحہ سپلائرز اور عالمی سطح پر جنگوں کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں نام نہاد مسلم بلاک کی تشکیل کے لیے غلط راستے پر چلتا اور احمق بنتا رہا تھا۔

یہ ناممکن ہے کہ ہندوستان کو ہتھیاروں کے زور پر اور فوجی قوت کے بل بوتے پر جھکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی یہ خوف نہیں ہونا چاہیے کہ ہندوستان فوجی قوت کے بل پر اسے تباہ و برباد کرسکتا ہے۔ اس طرح کی باتوں کا زمانہ کب کا گزرچکا۔

ایسے میں پاکستان کو مٹادینے کا ایک ہی راستہ رہتا ہے کہ اس پر بدترین حملہ کردیا جائے مگر پاکستان کے خلاف ایسا کچھ کرنے کی سوچ ہندوستان کی کوئی ناعاقبت اندیش حکومت، اس کے سیاستدان یا فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی کی ہوسکتی ہے جو یہ سمجھتے ہوں کہ اس طرح تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں اور ان کے لیے صورتِ حال اطمینان کا باعث بن سکتی ہے۔

صورتِ حال کے باعث لاحق خطرات کو سفارت کاری کے ہنر سے ہی ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک ہی شرط ہے کہ سفارت کار حقیقت کو سمجھیں اور اپنی اہلیت سے کشیدگی میں کمی کی سنجیدہ کوشش کریں نا کہ الزام تراشی یا نمبر بڑھانے کے چکر میں الجھ جائیں۔

اس وقت پاکستان کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ اس کی سکیورٹی فوجیوں کی تعداد یا اسلحہ کے ذخائر میں ہے یا پھر ملکی اقتصادی استحکام، جمہوریت کی مضبوطی اور ریاست کے باشندوں کے جذبہ حُب الوطنی کی بحالی میں۔

اس وقت بظاہر یہی لگتا ہے کہ صدر آصف زرداری ہو یا نواز شریف، ہندوستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے حوالے سے دونوں کے خیالات میں کچھ فرق نہیں۔ موقع اور ماحول تیار ہے، دروازے کھول دینے چاہئیں۔


ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (0) بند ہیں