pak-elections-670

یہ وہ وقت ہے جب کہا جارہا ہے کہ پاکستانی سیاست کے گندے انڈوں کی صفائی اور ریاستی معاملات، جنہیں ہر ممکن حد تک گہرائی میں دفن کردیا گیا ہے، انہیں درست کرنے کے لیے نگرانوں سے چند سال کا معاہدہ کرلینا چاہیے۔

بات اس بار کی ہو یا پہلے کے، ہر بار اس طرح کے مشورے آرام کرسی پر بیٹھے وہ حکیم دیتے رہے ہیں جن کی نظر میں تمام برائیوں کی اصل جڑ جمہوریت اور جمہوری حکومت ہے۔

تاہم حال ہی میں جو کچھ سامنے آیا، وہ ان کی طرف سے تھا، جو بعض سنجیدہ حلقوں سے مال بنا کر لطف اٹھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے بھی بعض جدید اداکار ہیں جن کا کام ہی ہمیشہ ملک کے بدقسمت لوگوں کو مشوروں سے نوازنا ہے۔

مثال کے طور پر جنرل پرویز مشرف، جو جنرل کیانی کی ناکامی قرار دے رہے ہیں کہ مولانا قادری کے کارواں کی اسلام آباد آباد آمد کے موقع پر وہ جو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے نہیں کیا۔ ساتھ ہی وہ تجویز دیتے ہیں کہ تین سال کے لیے ایسی عبوری حکومت قائم کی جائے جسے فوج اور عدلیہ کی پشت پناہی حاصل ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے ان کی پریس کانفرنس کو نظر انداز کردیا۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں خود ان کے تجویز کردہ علاج پر یقین نہیں اور وہ شفا کے لیے اس نسخے کو مسترد کرتے ہیں۔

پاکستان کو جمہوریت سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک اور تفصیلی نسخہ لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے اپنی خود نوشت میں پیش کیا۔ موصوف سن اُنیّسو ننناوے کے فوجی شب خون کے منتظم تھے۔

اس میں انہوں نے کارگل کی ناکام مہم جوئی سے متعلق تفصیل سے تحریر کیا جو انکشافات سے زیادہ سنسنی خیزی پر مشتمل ہے۔ یہ ان کی فوجی زندگی کا بے سواد باب تھا۔

یہ نا ممکن ہے کہ ایسے ادارے کے بارے میں لطف اندوز ہوا جاسکے جو اُن تمام غلطیوں کا ذمہ دار ہے جسے پاکسان تنِ تنہا نہیں کرسکتا تھا۔ جنرل شاہد انتخابات کے نتیجے میں کسی مثبت تبدیلی کی امید کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ موجودہ نظام کچھ دینے والا نہیں۔ وہ عملِ ارتقا کے تحت اس نظام میں اصلاح کو بھی مسترد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دنیا بھر میں جمہوری عمل شکست و ریخت سے دوچار ہے۔

اس کے بعد ان کا ارشاد ہے کہ 'ہماری اقتصادی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی روایات اس سے (جمہوریت) سے مختلف ہیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کبھی بھی پاکستان کو اس کی منزل تک نہیں لے جاسکتی، ان کے الفاظ میں: 'ایک سیلف گورنس، ازخود متفق، معزز اور ترقی پسند اسلامی ریاست ہی انصاف، سماجی مساوات اورعزت کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے۔ ایسی ریاست، جس میں ہر شخص امن سے زندگی بسر کرتا ہواور یوں وہ نظام باقی تمام دنیا کے لیے مثالی بن سکتا ہے۔'

ان کے رومانوی فارمولے میں سرخ، سبز سمیت بہت سے رنگ غلط ملط ہیں۔ (دائیں بازو والوں کا تو اظہار یہی ہوسکتا ہے کہ اگر 'اسلامی ریاست' اپنے اصولوں کی خلاف ورزی کے بجائے کیے گئے وعدے پورا کرسکتی ہے، تو وہ کریں)۔

لیکن اس اسلامی ریاست کے منصوبے پر سوال ہے کہ آیا اس کے سماجی مساوات مسلموں اور غیر مسلموں، مرد و عورتوں پر بنا تخصیص کے، یکساں لاگو ہوں گے، آیا اس مساوات میں بے زمین کاشت کار کو زمین دار جتنی عزت حاصل ہوگی۔

اور یہ کہ خود نگراں حکومت پر مشتمل ریاست میں اقتدار کی باگ دوڑ اکثریت کے ہاتھوں میں ہوگی یا پھر صرف متقی و پرہیز گار مردوں کے ایک اقلیتی گروہ کے قبضے میں۔

جنرل شاہد عزیز کے اس منصوبے میں لوگوں کے مقدر کا فیصلہ کیا ہے؟ ایک منظم عوامی تحریک، جو سڑکوں پر قبضہ کر کے وہاں براجمان ہوجائے اور حکومت گر پڑے۔ مارشل لاء نہ عوام کے لیے قابلِ قبول ہے اور نہ ہی فوج کو منظور۔

سپریم کورٹ انقلابی کونسل کو فوج کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دے۔ (کیا یہ اس کا مینڈٹ ہے؟)

عبوری حکومت کے قیام کے بعد انقلابی کونسل ایک نیا نظام قائم کرے۔ (کیا یہ آئینی ہے؟)

اس نظام کے تحت منعقد کرائے گئے انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ فوج بنا کسی مداخلت کے اس سارے عمل کی پشت پناہی کرے۔ کتنی سادہ سی بات ہے!

ان پر یقین کے لیے دباؤ ڈالنے والی لابیوں کے سامنے جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کرنے والے دو سابق جنرلوں کے ادوار پیش کرنا ضروری ہیں۔

ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شب خون مارنے والوں کے سحر میں اب تک مبتلا ہیں۔ 'پاکستان بچاؤ' مسالہ کے اجزا پاکستان اور عرب کے فوجی 'انقلاب' کی تراکیب میں بھی مل سکتے ہیں۔

مصیبت تو یہ ہے اس نسخے کی صرف ایک خوراک کے ساتھ نامکمل جمہوریت کا علاج کرنے کی کوشش کہیں بھی کار گر ثابت نہیں ہوسکی۔ اس علاج نے ہر جگہ مریض کو پہلے سے بد تر حالت میں چھوڑا ہے۔

اس ضمن میں بنگلہ دیش کی مثال پیشِ نظر ہے، جہاں فوج کی پشت پناہی سے قائم نگراں حکومت نے بدعنوان سیاستدانوں سے معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔

کیا فوج کی پشت پناہی والی وسیع نگراں حکومت کے تجربے سے بنگلہ دیشی حکومت اور سیاست میں کچھ تبدیلی آئی؟

ویسے بھی ہم بنگلہ دیشی تجربے کی طرف کیوں دیکھیں، خود ہمارے ہاں بھی تو اسی طرح کی تبدیلیوں کے لیے کئی بار جمہوری عمل میں مداخلت کی جاچکی ہے، تو کیا اس کے خاطر خواہ نتائج نکلے؟

ذرا ایوب خان کا دور یاد کیجیے۔ انہوں نے سیاستدانوں کو الگ تھلگ کرنے پر ہی بس نہیں کیا انہیں جی بھر کر بدنام کیا، جمہوریت کو برطرف کیا اور اس کی جگہ آمریت کی سربراہی میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا اور اپنے دستخطوں سے آئین کے اجرا کا خود کو اہل قرار دیا۔

ان سب سے ہمیں حاصل کیا ہوا؟ ایک دہائی کے نام نہاد استحکام کے بعد ملک کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کے بعد سیلف اسٹائل مسیحا اور بھی آئے: یحییٰ خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف۔۔۔ کسی نے کچھ بہتر نہیں کیا۔

ان سب نے بطور نگراں اقتدار چھینا اور پھر جمہوریت کو سنگین خطرات سے دوچار کردیا۔ عوام آج بھی ان کے تجربات کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں۔

ان خود ساختہ آقاؤں نے عوام کی مذمت کی اور جو کچھ بُرا ہوا، اس کا بڑا حصہ خود انہی کے ہاتھوں انجام پایا۔ انہوں نے جمہوریت کو پابند کیا، جس کے دو بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔

ایک طرف تو وہ مذہبی پیشواؤں کو مرکزی اسٹیج پر لانے کا سبب بنے تو دوسری طرف انہوں نے سیاستدانوں کو پانچ سے لے کر نو سالوں کے لیے گھر بھیج کر اُن کے کریئر کو مزید توسیع دی۔

اگر معمول کی سیاسی سرگرمیاں ہوں تو اس سے سیاسی جماعتوں میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور اس عمل کے دوران غلط سیاستدانوں کی جگہ نئے سیاستدان لے لیتے ہیں۔

کیا ہم ایک بار پھر یہی مہنگا تجربہ دہرانا چاہیں گے؟ بدعنوان سیاستدانوں کو اُن کے گھروں کی راہ دکھانے کا بہترین طریقہ ووٹ ہی ہے۔

اکثر دلیل دی جاتی ہے کہ یہ لوگوں کا حق ہے وہ اسٹریٹ پاور کے بل بوتے پر غلط حکمرانوں کو ایوانِ اقتدار سے نکال پھینکیں۔ کیا ہم اس طرح کی کوششوں میں ناکام نہیں رہے؟

سن آنیّسو اڑسٹھ ۔ اُنہتّر اور پھر سن اُنیّسو ستتر، اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ سڑکوں پر احتجاج کی سیاست نے فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع دیا۔

اگر سڑکوں پر احتجاج کی سیاست منظم اور واضح طور پر رہنما خطوط پر استوار نہ ہو تو جمہوری تنظیمیں صرف انتشار اور بگاڑ پیدا کرتی ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کو اقتدار پر قبضے کی دعوت دیتی ہیں۔

بانسری پر مدھر دھن بجاتے پائی پائپر کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلنے کے بجائے لوگوں کو یہ تعین کرنا چاہیے کہ آیا وہ اس قابل ہے کہ جن گلابوں کا وعدہ کررہا ہے، وہ دے بھی سکے گا یا نہیں۔

تمام سیاسی تنطیمیں اپنے اپنے طبقات کے مفادات کے تحفظ اور ان کی رہنمائی کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں۔

اس بات پریقین میں شاید ہی دانشمندی شامل ہو کہ مذہبی جماعتیں اقتدار میں آکر جمہوری نظام مضبوط کریں گی یا سرمایہ داری کے حامی آگئے تو مزدوروں کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کریں گے۔

جمہوری راہ سے ایک بار پھر بھٹکادینا عوام کی خدمت نہیں۔ آئیں، انتخابات کی طرف بڑھتے ہیں۔

اس بات کا امکان نہیں کہ ان انتخابات کی صورت ہمیں مثالی حکمران ملیں گے لیکن اس بات کا امکان ضرور ہے کہ جمہوریت جتنی پہلے کے مقابلے میں آج محفوظ ہے، اس سے کہیں زیادہ محفوظ اور بہتر ضرور ہوسکے گی۔

رائے عامہ انتخابات جیتنے والوں کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ قانون اور جمہوری اقدار کے ساتھ کھیلیں، جیسا کہ اب تک دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

جمہوری ارتقائی عمل کو کچلنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، کیونکہ جمہوریت ہی وہ راستا ہے جو عوام کی حکمرانی کے خواب کو تعبیر بخش سکتا ہے۔


ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (2) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Feb 19, 2013 01:21pm
اب بھی کچھ قوتیں ایسی هیں جو هرحالت میں انتخابات نہیں کرنا چاہتی اس لئے قادری کے ڈرامے کے بعد ایسے خالات پیدا گئے جارہی هیں یا کوشش هورهی هے کۂ وه اور تمام لوگ کهۂ سکیں کۂ اب ملک میں انتخابات کروانا ممکن نہیں اور اس پر کام بڑی تیزی سے شروع هو چکا هےهم ان تمام قوتوں اور شخصیات سے درخواست کرتے هیں که لاشوں اور حکمرانی سازشوں‎ ‎کی سیاست چھوڑ دیں اب بس کرو ‏‎ ‎اور حالات کو اتنا خراب نه کریں که واپسی کا راستۂ هی باقی نۂ هو لوگ گھٹن اور‎ ‎لاقانونیت افراتفری کے ماحول سے اتنےتنگ آچکے‎ ‎هیں که ایک چنگارئ کے بعد کوئی راستہ نہیں هوگا ماسوائے علیحدگی لوٹ مارکے اور اسکے کچھ بھی نہیں رہےگا نه ملک نه اور کچھ نه ملک نه ریاست نه ادارے نه حاکم نه محکوم نه وزیر نه مشیر نه صدر نه وزیر اعظم نه اسمبلی نه ممبران
Israr Muhammad Khan Feb 19, 2013 06:53pm
پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ هی فوج نے اپنی بالادستی قائم کررکھی هے فوج نے 40سال سے ذیادہ براہ راست خکومت کی هے اور باقی 23‏/22 سال بھی (کنٹرول) جمہوریت کے نام پر بھی اصل‏ حکومت انکی رہی هے اور آج بھی هے درحقیقت فوج هی حکومت هوتی هےاور اسکا اظہار فوج نے‎ ‎خود باربار‎ ‎کیا‎ ‎هے اور اس بات میں شک و شبہ کی قطعی کوئی گنجائش ختم هو چکی هے اس لئے ‏‎ ‎یۂ بات یقینی هے کۂ جب فوج سے یۂ اختیار لیا نہیں جاتا یا فوج اسکو خود نہیں چهورٹی اس وقت تک حقیقی جمہوریت اور عوام کی بالادستی کا دعوہ کرنا فضول اور بے معنی هوگا فوج ملک کو اپنی جاکیرسمجھتی هےاورهم کواپنا رعایا سمجھتی هے‎ ‎اس روئیے‎ ‎کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیااور آجکل حالات بنگلہ دیش والے حالات سے زیادہ خراب اور ابتر هوچکۓ هیں‎.‎