لشکر جھنگوی کے سبراہ ملک اسحاق اپنے بیٹے کے ہمراہ رائٹرز کو انٹرویو دے رہے ہیں۔
لشکر جھنگوی کے سبراہ ملک اسحاق اپنے بیٹے کے ہمراہ رائٹرز کو انٹرویو دے رہے ہیں۔

اسلام آباد:  پاکستان فوج نے دو ٹوک الفاظ میں ملک بھر میں بالخصوص بلوچستان میں شیعہ برادری کے قتل عام میں ملوث کالعدم دہشت گرد جماعت لشکر جھنگوی سے رابطوں یا تعلقات کی تردید کر دی ہے۔

فوج کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے خصوصی طور پر بلائی گئی ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ ' مسلح افواج لشکر جھنگوی سمیت کسی بھی دوسری عسکریت پسند جماعت سے رابطے میں نہیں'۔

خیال رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں فوج اور خفیہ اداروں پر لشکر جھنگوی سے تعلقات رکھنے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔

یہ الزامات فوج کی جانب سے لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کو اکتوبر 2009 میں ملٹری ہیڈ کواٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں سے مذاکرات کے لیے استعمال کیے جانے کے بعد شروع ہوئے تھے۔

بعد میں ملک اسحاق کی جیل سے رہائی کو بھی ایک  ڈیل کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

اسی طرح، کوئٹہ میں فوجی کنٹونمنٹ کے حراستی مرکز سے گروپ کے بلوچستان میں آپریشنل کمانڈر عثمان سیف اللہ کرد کے فرار پر بھی ہمیشہ سوالیہ نشان اٹھائے گئے۔

میڈیا سے گفتگو کے اختتام پر جنرل باجوہ نے ڈان کو بتایا کہ ' فوج کے لشکر جھنگوی کے ساتھ تعلق کی کوئی وجہ نہیں بنتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ' فوج ان سے رابطے کی متحمل نہیں ہو سکتی'۔

اس موقع پر انہوں نے شدت پسند گروپ حذب التحریر سے تعلق رکھنے پر بعض فوجیوں کے خلاف کارروائی کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسی طرح اگر کسی کے لشکر جھنگوی کے ساتھ تعلقات سامنے آئے فوراًً کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

خیال رہے کہ لشکر جھنگوی نے سولہ فروری کو کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں نوے سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

اس گروپ پر شیعہ اقلیت پر دوسرے حملوں کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔

ہزاؤ ٹاؤن میں بدترین حملے کے خلاف دھرنا دینے والے شیعہ مظاہرین کا اہم مطالبہ فوج کی سربراہی میں کوئٹہ میں کالعدم تنظیم کے خفیہ ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق تھا۔

اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے فوج کی جانب سے شہر میں تعیناتی پر رضا مندی کے باوجود اس مطالبہ کو مسترد کر دیا تھا۔

جنرل باجوہ نے صحافیوں کو بتایا کہ 'بلوچستان میں مسلح افواج کو نہ بلانے کا فیصلہ سیاسی اقدام تھا، حالانکہ فوج آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت شہری انتظامیہ کی معاونت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں تھی'۔

ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت نے دھرنا دینے والے مظاہرین سے مذاکرات کے دوران ظاہر کیا تھا کہ فوج شہر میں ذمہ داری سنبھالے کو تیار نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Feb 22, 2013 06:00pm
دال میں کچھ کالا ضرور هے جسکی سے وضاحتی بیانوں کی ضرورت پیش آرہی هے
shahzad Feb 23, 2013 10:05am
i m agree with Mr Asrar Mohammad khan, something wrong.
Israr Muhammad Khan Feb 23, 2013 08:44pm
23 فروری کا انداز بیان خوب تھا لیکن حقیقت وه نہیں هے جسکا اپ نے دفاع کیا هے میرے حیال میں تمام فساد کی جڑ راولپنڈی والے هیں ان لوگوں نے بلکہ تمام ملک کو یرغمال بنا دیا هے ان لوگوں کے خیال میں عوام کی کوئی حیثیت هی نہیں هے ملک کے دو اہم ادارے داخلۂ اور حارجه براۂ راست ان لوگوں کی کنٹرول میں هے اور دوسرے ادارے بھی ان هی اثر میں هیں 22 فروری کا وضاحتی بیان شیح الاسلام کے دھرنے پہلے دینا چاہیے تھا اب اس وضاحتی بیانون پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا کیری لوکر بل میں اپنے حصے کیلئے کیا نہیں گیا تھا نیٹو سپلائی بند هوئی ریاست میں ریاست کی بات پر گیلانی کا کیا حشر هوا خقانی کو مضمون کے نام پر ملک بدر هونا پڑا آئی ایس آئی کو وزارت دفاع کے تابع کرننے پر کتنا واویلا هوا اور اس طرح کے دوسرے بے شمار اسکے علاوہ ان لوگوں نے ریئل سٹیٹ انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ میں باقاعدہ کاروبار بھی شروع کیا هے واقعات جب تک پنڈی اسلام آباد کے اختیارات کا خقیقی تعین نہیں کیا جاتا فوج کی بالادستی اور حکمرانی قائم رہیگی