فائل فوٹو --.

پشاور میں ایک ممتاز وکیل کو سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ انہیں عقیدے کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔ اب ہر پاکستانی کوجان لینا چاہیے کہ حکومت فرقہ وارانہ تشدد کی جڑوں تک پہنچنے میں بدستور ناکام رہی اور یہ اسی کا بھیانک خمیازہ ہے۔

مقتول جرّار حسین، نرم خو اور غیر متنازع کے شخصیت کے مالک تھے۔ وہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے۔ ان کا قتل ہائی پروفائل ہے، جس کا سلسلہ پشاور میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کافی عرصے سے جاری ہے۔

قبل ازیں، چند ہفتے قبل دو سینئر ڈاکٹروں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اُن میں سے ایک ماہرِ امراض چشم اور دوسرے گیسٹرولوجسٹ تھے۔ ایک ایڈیشنل جج بھی گولیوں کا نشانہ بننے سے بال بال بچے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ جناب جرار حسین کو ہائی کورٹ بنجچ میں جج مقرر کیا جانے والا تھا۔ اس وقت، جیسا کہ بتایا جاتا ہے، ہائی کورٹ میں ججوں کی متعدد اسامیاں خالی ہیں، جن کے لیے ملک کو انتہائی تجربہ کار امیدواروں کی ضرورت ہے، ایسے میں بلاشبہ ان کا قتل نہایت افسوسناک ہے۔

حیرانی کی بات نہیں کہ پشاور اب ایک اور کراچی بنتا جارہا ہے، جہاں محسوس ہوتا ہے کہ معروف پروفیشنلز کے اہدافی قتل یا ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا۔

دس جنوری کو کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ کا قتلِ عام ہوا، جس کے بعد ملک گیر احتجاج پر حکومت ہل کر رہ گئی اور رئیسانی حکومت کو گھر بھیجنا پڑا۔ اس کے بعد پچھلے ہفتے ہزارہ برادی کو ایک اور بدترین سفاکانہ قتلِ عام کا سامنا ہوا اور پھر اس کے نتیجے میں ملک گیر احتجاج شروع ہوا۔

جدھر دیکھو فرقہ واریت کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے:

پچھلے دنوں ہی کراچی میں تین مذہبی علما کو سرِ عام گولیاں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سے قبل ہنگو کی ایک مسجد کے باہر کیے گئے حملے میں ستائیس افراد اپنی جانوں سے گئے۔

پنجاب میں مختلف مقامات پر عید میلاد النبی کی محافل پر حملے کیے گئے، جس کا مطلب ہے کہ فرقہ وارانہ عدم برداشت اب گاؤں دیہاتوں کی سطح تک بھی پھیل چکا۔

اگرچہ بلوچستان میں گورنر راج کا قیام ایک دھچکا تھا لیکن جن خاندانوں کے پیارے بم دھماکوں میں چلے گئے تھے وہ اُن کی تدفین سے انکاری تھے، اسی لیے حکومت کو یہ قدم اٹھانا پڑا اور اس کے لیے ریاست اور عوام، دونوں کو چار دن تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد گذشتہ ہفتے پھر وہی بھیانک منظر تھا۔

جو بات صورتِ حال کو مزید سنگین اور بھیانک بنارہی ہے، وہ یہ کہ انتظامیہ اب تک ٹارگٹ کلنگ کو فرقہ وارانہ تفریق کا سبب قرار دے کر، اسی طرح اس سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے، حالانکہ یہ معاملہ مکمل طور پر قانون کے نفاذ کا ہے۔

اس بات پر بدستور زور ہے کہ خطرات کا سامنا کرنے  کے لئے کمیونٹیز اور انفرادی سطح پر شخصیات کے گرد حفاظتی گھیرا مزید سخت کردیا جائے۔

مثال کے طور پر، وفاقی وزیرِ داخلہ نے جعفریہ الائنس کے صدر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بلوچستان میں ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے مزید سکیورٹی فراہم کردی جائے گی۔

اس بات پر عوام کو قطعی اعتماد میں نہیں لیا گیا کہ 'اضافی سکیورٹی' سے اُن کی مُراد کیا ہے۔

حتیٰ کہ اب بھی اس با ت کی شکایات موصول ہورہی ہیں کہ انتظامیہ فرقہ وارانہ قتل و غارت کے ذمہ دار بڑے ملزمان کی گرفتاری میں ناکام رہی ہے۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ یہ بے بنیاد بات ہے۔

بلوچستان میں ہزارہ شیعہ اور بعض دیگر فرقوں کے افراد کے قتل میں ملوث تنطیموں کے بارے میں، کئی برسوں سے سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہی میں سے ایک تنظیم شیعہ ہزارہ کو مٹا ڈالنے کے اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھ رہی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ قاتلوں کا گروہ جس تنظیم سے تعلق رکھتا ہے، اُسے بہت پہلے کالعدم قرار دیا جاچکا تھا، تاہم یہ پابندی بے معنیٰ ثابت ہوئی۔

انتظامیہ اچھی طرح یہ بات جانتی ہے کہ کالعدم قرار دی گئی تنظیموں نے پابندی کے بعد نام بدل کر سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے وہ لوگ جو نام بدل کر سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں یا تنطیم کو کالعدم قرار دینے کے بعد جُرم کرتے ہیں، دونوں صورتوں میں متعلقہ قانون انہیں بری الذمہ قرار نہیں دیتا۔

لیکن اس کے باوجود اب تک ایسی کوئی اطلاعات نہیں کہ فرقہ واریت کو پھیلانے والے ان قانون شکنوں کے خلاف کوئی آپریشن کیا گیا ہو۔

مذہبی منافرت پر مبنی لٹریچر کی اشاعت اور تقسیم ہر سال بڑھتی جارہی ہے، جس سے مختلف فرقوں کے درمیان نفرت بھی مزید بڑھ رہی ہے۔

فرقہ واریت اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تشکیل دیے گئے قانون کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ اس طرح کی سرگرمیوں کی بیخ کنی کی جائے، تاہم عملی طور پر اس کا جو مظاہرہ ہے، اسے دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ اسے ضائع کردیا گیا۔

وہ جو عوامی اجتماعات کا انعقاد اور ان سے خطاب تک رسائی رکھتے ہیں، اپنی تقریروں میں مذہبی بنیادوں پر نفرت کی تعلیم اور تشدد کا پرچار کرتے ہوئے نوجوانوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ جو ہم عقیدہ نہیں، وہ واجب القتل ہے۔

فرقہ وارانہ جنون تو اب فارمولا بن چکا، جس کا مقابلہ قانون، عدالت اور سکیورٹی اداروں کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا۔ اب تک ہم ایسی متبادل حکمتِ عملی تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کے تحت سوچ اور فکر کی جنگ کا جواب دیا جاسکے۔

حال ہی میں کراچی کی دو مختلف فرقوں والی مذہبی جماعتوں کے درمیان اتفاق پایا ہے کہ وہ باہم مل کر برادر کشی کے خلاف احتجاج کریں گی۔

یہ لائقِ تقلید اور خوش آئند اقدام ہے تاہم اس بات کی ضرورت ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔

مختلف فرقوں کے درمیان باہمی رواداری کے فروغ کی کوششیں کی جانی چاہئیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے قریب آسکیں، خیالات کا تبادلہ کرسکیں اور ایک دوسرے کے نظریات کے احترام کی طرف بڑھ سکیں۔

اگرچہ محدود پیمانے پر مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور علماء کی حد تک تو روابط ہیں تاہم مکمل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے یہ سلسلہ گراس روٹس لیول یا نہایت بنیادی عوامی سطح سے شروع ہونا چاہیے تاہم اب تک ایسی کوششوں کا فقدان رہا ہے۔

سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عام آدمیوں، بالخصوص ملک کی بہت بڑی دیہی آبادی تک، میڈیا کے ذریعے اکثر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے چھوٹے چھوٹے پیغامات دیے جاتے رہے ہیں تاہم وہ اکثر بے اثر ثابت ہوئے۔

یہاں، اس وقت اشد ضرورت ہے کہ مختلف فرقوں کے رہنما مشترکہ طور پر گاؤں اور دیہاتوں کی سطح تک، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اجتماعات منعقد کر کے، اپنے پیچھے چلنے والوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام دیں۔

کسی کو علم نہیں کہ ایک کی طرف سے دوسرے کو مردود قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے بجائے اتحادِ بین المسلمین کے اس مقصد پر توجہ مرکوز کرنے اور حقیقی راہ نجات کے لیے مختلف مکاتبِ فکر کے علما کو رضامند کیا جا بھی سکے گا یا نہیں۔

وجہ یہ ہے کہ اکثر دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے فرقہ بندی کو ہوا دی جاتی ہے۔ علیحدہ مساجد، علیحدہ مدارس اور علیحدہ خطبے۔ ان سب کے انعقاد کے پیچھے لوگوں کی قوت حاصل کر کے بہتر طرز زندگی کی خواہش بھی اکثر کارفرما ہوتی ہے۔

اکثر فرقہ وارانہ امن و ہم آہنگی کے لیے جو دلائل دیے جاتے ہی وہ مادّی مفادات کے بُت توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور اب سیاسی کار فرمائیوں سے پُر فرقہ وارانہ تنازعات کی بھی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔

فرقہ وارانہ قوتوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے ضرورت ہے کہ قومی سطح پر مذہبی علماء، متعلق افراد اور سول سوسائٹی کے ارکان مل کر کوششیں کریں۔

عام انتخابات منعقد ہونے والے ہیں، ایسے میں فرقہ وارایت کو اس سے دور رکھنے کی فوری ضرورت درپیش ہے۔

کوئی بھی اس بات کا با آسانی مشاہدہ کرسکتا ہے کہ اس وقت سوسائٹی، سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ پولرائزیشن بڑھ رہا ہے۔

اس خدشے کے لیے وجوہات موجود ہیں کہ بعض عناصر انتخابات کے جمہوری کردار کو کمزور کرنے کے لیے فرقہ وارانہ اختلافات کا سہارا لے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں تشدد کے خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اگر ایسا ہوا تو پھر یہ مذہب اور سیاست، دونوں کے لیے ایک ایسا نقصانِ عظیم ہوگا، جس کے غیر انسانی اثرات سے، ان فرقوں کی آنے والی نسلیں بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گی۔


ترجمہ: مختار آزاد

تبصرے (0) بند ہیں