تصویری خاکہ۔—ماہ جبین/ ڈان۔ کام

میں ایک پیشہ ور ہوں۔ لفظ ’پیشہ’ سے آپ کے ذہن میں جو بھی آتا ہے اس سے آپ کا چال چلن ظاہر ہوتا ہے میرا نہیں۔ میں خود کو پیشہ ور کہتا ہوں کیونکہ میں بہت سے پیشے اختیار کر چکا ہوں اور جوباقی بچے ہیں انہیں کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آج سے میں آپ کے ساتھ مل کر ایک نیا پیشہ شروع کر رہا ہوں: پیشہ وارانہ مشاورت کا۔ اس میں مشورہ دینے کا کام میں کروں گا اور اسے ہنسی میں اڑانا آپ کا کام ہے۔

بڑا بول بولنے کی مجھے ضرورت نہیں، لیکن اپنے مشیر کی پیشہ وارانہ اہلیت پر سوال کرنا آپ کا حق ہے۔ اس لیے میرا جواب پیش خدمت ہے: میں نے ہوائی جہاز اڑائے ہیں اور وہ بھی کاغذ کے نہیں بلکہ پاکستان ائر فورس کے، میں نے میڈیکل سٹورز کو روئی، پٹی اور زنانہ نیپکن سپلائی کیے ہیں، سکیورٹی گارڈ رہا ہوں، ٹیلی فون پر ایسی اشیاء بیچتا رہا ہوں جنہیں کوئی خریدنا نہیں چاہتا، میں سکول ٹیچر رہا ہوں، گھر گھر جا کر اخبار تقسیم کرتا رہا ہوں، ایڈمن افسر رہا ہوں، میں نے فلموں میں ایکسٹرا کے طور پر کام کیا ہے، سیاحوں کی ڈرائیوری کی ہے، ایک سنیکس بار چلانے کی کوشش کی ہے، اور ایک شاندار رسالہ شائع کرتے کرتے رہ گیا۔

میں نے خون کے عطیات دیے ہیں، فوکس گروپس میں شرکت کی ہے، اور دواؤں کی جانچ کے لیے خود کو رضاکار کے طور پر پیش کیا ہے، اور یہ سب پیسے کے لیے کیا ہے۔

ایسا نہیں کہ میں نے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا یا کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کیا۔ میں نے بیس برس تک معمول کی نوکریاں بھی کی ہیں اور جن دس شہروں میں کی ہیں وہ تین بر اعظموں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ میرے مالک گورے رہے ہیں، سیاہ فام، اور ایسے لوگ بھی جو اپنی جلد کا رنگ معلوم نہیں ہونے دیتے۔

مردوں سے زیادہ خواتین میری باس رہی ہیں اور میرے ماتحتوں میں عورتوں سے زیادہ مرد رہے ہیں۔ میں نے دفتری سیاست میں بھی اسی جوش و خروش سے حصہ لیا جو دفتری پارٹیوں اور یونین میٹنگز کا حصہ ہوتا ہے۔ میں نے سکینڈل بنائے، سکینڈل چھپائے اور سکینڈل افشا کیے ہیں۔ میں اپنے ساتھیوں میں ہر دل عزیز رہا ہوں اور ناپسندیدہ عناصر کے لیے درد سر۔ انہی نوکریوں کے دوران مجھے زندگی کے بہترین رفیق ملے اور بد ترین دفتری قذاق۔

پیشہ وارانہ زندگی میں مجھے اپنی ایک ناکامی کا بھی اعتراف ہے۔ میں نے ہر نوکری یہ مان کر چھوڑی کہ یہاں کرنے کو جو کچھ تھا میں کر چکا ہوں اور اب اس جگہ اور اس کام سے بوریت ہونے لگی ہے۔ سوائے ایک نوکری کے۔ ایک ہی کام ہے جسے میں پورا نہ کر سکا۔ فالتو ٹائم لگا کر بھی نہیں۔

اخباری اشتہار کے مطابق ایک کمپنی کو نوجوان، توانا، اور پڑھے لکھے افراد کی ضرورت ہے جو آرام دہ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ کام کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی لیکن یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ کامیاب امیدواروں کو ویزہ دیا جائے گا۔

اسے کہتے ہیں باہمی دلچسپی کے امور، انہیں جو چاہیے وہ سو فیصد مجھ میں ہے اور مجھے ویزہ چاہیے جو اس کمپنی کے پاس ہے۔ سو میں نے فون اٹھایا اور مینیجر کو خوشخبری دی کہ آپ کو تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا۔  کیا میں کل سے کام شروع کر دوں؟ ’کیا آپ جاننا نہیں چاہیں گے کہ ہم کام کیا کرتے ہیں؟’ ایک بھاری اور رعب دار آواز نے جواب دیا۔ ہاں جی - - - وہ تو - - - میں تو - - - خود یہی پوچھنے والا تھا، میری بوکھلاہٹ سے محظوظ ہوئے بغیر وہ کام بتانے لگا: ’ہم خواب بیچتے ہیں - - -’ بس اتنا سنتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کام میرے لیے اور میں اسی کام کے لیے بنا ہوں۔

تو اس طرح میں ایک انشورنس سیلزمین بن گیا جسے پاکستان میں بیمہ ایجنٹ بھی کہتے ہیں، گو وہاں غیر ملک میں مجھے کمپنی کا چھپا ہوا بزنس کارڈ دیا گیا جس پر میرے نام کے ساتھ فائنینشل ایڈوائزر کا مرعوب کن عہدہ درج تھا۔ پہلے ایک مہینے میں صرف تربیت ہوئی جس کے امتحان میں اول پوزیشن لے کر میں پہلے سال میں ہی ملین کلب کا رکن بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ پھر دوسرا مہینہ گذرا اور تیسرا، لیکن میں ایک پالیسی بھی نہیں بیچ سکا۔ میں نے اپنے مینیجر سے مدد لی، اپنے کوچ سے مدد لی، خود بھی بڑا زور لگایا لیکن کام نہیں بنا۔ آخر تین مہینے بعد میں واپس ایک باقاعدہ نوکری کی طرف لوٹ گیا۔

لیکن مجھے بھولا نہیں کہ انشورنس بیچنا ایک ایسا کام ہے جو مجھ سے نہیں ہوا۔ میں نے دوسری نوکری کرتے ہوئے چند پرانے کلائنٹس سے بھی رابطہ رکھا اور انہیں خواب بیچنے کی کوشش کرتا رہا۔ بالآخر ایک دن ایک بہت محتاط قسم کے کلائنٹ نے بیسیوں سوالوں اور پوچھ پڑتال کے بعد ایک پالیسی خریدنے کی حامی بھر لی۔ میں انشورینس کمپنی کا ملازم نہیں رہا تھا اس لیے اپنے دستخط بھی نہیں کر سکتا تھا سو میں نے داہنے ہاتھ پر پٹی باندھی اور ایک پرانے ساتھی کو مفت کا کیس اور اس کی کمیشن دلوانے، اور خود کو احساس ناکامی سے نجات دلانے کے لیے کلائنٹ کے پاس جا پہنچا۔

خوش گپیوں کے بعد میں نے اعتماد سے فارم اس کی جانب بڑھایا اور مسکرا کر پارکر پین کی جانب اشارہ بھی کیا جو میں نے فارم کے اوپر رکھا تھا۔ لیکن اس مرد آزاد نے کمر پیچھے ٹکا کر کرسی پر جھولنا شروع کر دیا اور اسی دوران مجھے بتایا کہ رات اس نے بیوی سے اس بارے میں بات کی تو اس نے یہ کہہ کر سخت مخالفت کی کہ انشورنس اللہ سے لڑائی ہے - - - اس نے اور بھی بہت کچھ کہا جو میں نے سنا نہیں۔ جب اس نے بات شروع کی تھی تو میرا دل وہیں کھٹک گیا تھا۔ بتاؤ بھلا، یہ رات کو سوتے وقت کرنے والی بات ہے؟

خیر تو بہرحال اب مجھے اس ناکامی کے ساتھ ہی جینا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں انشورنس کے حوالے سے کوئی مشورہ نہیں دے سکتا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو کامیابی کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں اور ناکامی سے سبق سیکھتے ہیں۔ لہذا میری تمام ناکامیاں میری علمیت اور اہلیت کی بنیاد ہیں۔

اور ان سب تجربات کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نوکری سے جہاں تک ہو سکے بچنا چاہئیے، خاص طور پر ایسی نوکری جس میں کام بھی کرنا پڑے۔ لیکن اگر اماں باوا نے پیسہ خرچ کرکے یا کسی انکل کی سفارش سے نوکری دلوا ہی دی تو پھر کیا کیا جائے؟ اور اگر نوکری نہیں تو پھر زندگی میں کرنے کو اور کیا ہے؟ ایسے پیچیدہ سوالوں کا جواب ہم ان صفحات پر مل کر تلاش کریں گے۔

کام پر آنکھ مٹکا اور دفتری ساتھی کو جیون ساتھی بنانے کے رومانی عزائم اور عملی مشکلات کا بھی ذکر ہو گا اور اس جیون ساتھی سے طلاق لینے اور کسی اور کی/ کے جیون ساتھی سے تعلق بنانے کی باریکیوں اور نزاکتوں پر بھی بات ہو گی۔ یہاں ذکر رہے گا باس کی خواہشات کا اور ماتحت کے لیے اپنے ہاتھ اور زبان کے صحیح استعمال کا۔ نوکری ڈھونڈھنے کا اور اس سے جان چھڑانے کا۔ چھوٹی نوکریوں کا، بڑی نوکریوں کا، اور بیروزگار ہونے کا ذکر۔ بیرون ملک نوکری کے فائدے اور نقصان، کام سے شدید نفرت یا محبت کا اظہار،  یہاں کام سے جڑی ہر بات کہنے کی آزادی ہے۔

بس یہ خیال رہے کہ حضرت مولانا زید حامد ٹوپی والے کے الفاظ میں جو انہوں نے پاکستانی میڈیا کے لیے استعمال کیے تھے، یہ آزادی ہی رہے آوارگی نہ بن جائے۔


مسعود عالم اسلام آباد میں ایک مصنف ہیں اور صحافت کی تربیت دیتے ہیں۔

[email protected]

تبصرے (1) بند ہیں

tahasabih Jun 20, 2012 02:49pm
بہت ہی اچھا عنوان چنا گیا ہے. آنے والے مضمونوں کا منتظر رہوں گا.