سال دوہزار بارہ میں بچوں کی مجموعی صورتحال میں بہت کم بہتری دیکھنے میں آئی۔ فائل تصویر
سال دوہزار بارہ میں بچوں کی مجموعی صورتحال میں بہت کم بہتری دیکھنے میں آئی۔ فائل تصویر

کراچی : ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ( ایچ آر سی پی ) نے سال دوہزار بارہ کے لئے پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی جامع رپورٹ پیش کردی ہے۔

تفصیلی رپورٹ میں پاکستان میں تعلیمی، سماجی، سیاسی ، علمی اور دیگر حوالوں سے حقائق اور اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق قوانین اور قانون سازی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سال دوہزاربارہ میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی تشکیل کے لیے قانون معرض وجود میں آیا تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اسی طرح خواتین کے مقام پر قومی کمیشن بل کو ایک خودمختار حیثیت تو دی گئی  لیکن اس پر مزید پیش رفت نہ ہوسکی۔

رپورٹ میں کہا گی ہے کہ سپریم کورٹ نے عدالت کے فعال ہونے کا دائرہ وسیع کیا جبکہ حکومت عدالتی احکامات ماننے میں پس و پیش کرتی رہی۔  اسی سال پاکستان میں دو سو بیالیس افرد کو سزائے موت سنائی گئ۔

رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ بہت کلیدی نوعیت کا تھا جبکہ میمو کیس نے ملک میں بہت ذیادہ سنسنی پھیلائی لیکن یہ معاملہ بھی تصفیہ طلب ہی رہا۔

امن و امان کی صورتحال

رپورٹ کے مطابق  دوہزاربارہ میں میں ملک بھر میں 350پولیس مقابلوں کی اطلاعات موصول ہوئیں جن میں 403مشتبہ افراد مارے گئے۔

فاٹا میں 48 ڈرون حملے ہوئے جبکہ 2011میں یہ تعداد 74تھی۔ ہلاک شدگان کی تعداد کا اندازہ 240سے  400کے درمیان لگایا جارہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار بارہ میں پاکستان بھر میں 1,577دہشت گردی کے حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 2,050افراد ہلاک جبکہ 3,822زخمی ہوئے۔ صرف بلوچستان میں 100سے زائد ہزارہ شیعہ مارے گئے۔

فائل تصویر اے ایف پی
فائل تصویر اے ایف پی

کراچی میں لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد میں کم ازکم 2,284افراد مارے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی کو پاکستان بھر سے 87افراد کی گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ 72افراد کا سراغ لگایایا انہیں رہا کردیا گیا۔

بلوچستان سے کم ازکم 72افراد کی نعشیں برآمد ہوئیں جوگزشتہ کئی مہینوں سے لاپتہ تھے۔

مارچ میں سینکڑوں حملہ آوروں نے سنٹرل جیل بنوں کا گیٹ توڑ دیا اور 384قیدیوں کو جیل سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے بشمول اس قیدی کے جسے سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

جیلوں کی حالتِ زار کے بارے میں کہا گیا کہ پاکستان کی جیلوں میں 75,444قیدی مقید تھے جبکہ ان میں گنجائش 44,578قیدیوں کی تھی۔

رپورٹ میں درج ہے کہ  ملک بھر میں 12,89بچے جیلوں میں قید تھے اور ان میں سے زیادہ تر کے مقدمات زیرسماعت تھے۔

2012میں 59قیدی جیل حکام کی تحویل میں ہلاک ہوئے جبکہ 81زخمی ہوئے اور قیدیوں پر مبینہ تشدد کے 10واقعات منظر عام پر آئے۔

نقل وحرکت کی آزادی

ماہ محرم میں پنجاب حکومت نے 929مذہبی علما کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کی جبکہ 439مذہبی علما کو تقریر کرنے سے روکا گیا۔

 2011میں بذریعہ بلوچستان سفر کرنے والے شیعہ زائرین پر حملوں کے بعد یہ ضروری قرار دیا گیا تھاکہ زائرین بلوچستان کے ذریعے ایران جانے کا سفر اختیار کرنے سے قبل حکام سے این او سی حاصل کریں مگر اس کے باوجود 2012میں شیعہ زائرین کے قتل کا سلسلہ جاری رہا۔

گیس کی قلت کے باعث ملک کے اندر لوگوں کی نقل وحرکت پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔ آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق ملک بھر کے 3,395گیس فلنگ سٹیشنز میں سے 1800کئی ہفتوں تک بند رہے جبکہ حکومت نے دیگر 1800سٹیشن واجبات کی عدم ادائیگی پر بند کردیئے تھے۔

فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی

ایچ آر سی پی کی رپورٹس کے گزشتہ سال بھی  مذہبی اور لسانی اقلیتوں پر حملوں اور ان کی ہراسیمگی کا سلسلہ جاری رہا اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے بہت کم کوشش کی گئی۔

تضحیک مذہب کے قانون میں ترمیم کا معاملہ التواء کا شکار رہا۔14سالہ لڑکی رمشا کو قرآن پاک جلانے کے الزام سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا جبکہ 17سالہ ریان کوجیل میں ڈال دیا گیا اور امریکہ میں پاکستانی سفیر شیری رحمان کے خلاف تضحیک مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا۔

فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حملوں اور فرقہ وارانہ تنازعات کے 213واقعات میں 583افراد ہلاک جبکہ 853افراد زخمی ہوئے۔

  گزشتہ سال  59قیدی جیل حکام کی تحویل میں ہلاک ہوئے جبکہ 81زخمی ہوئے اور قیدیوں پر مبینہ تشدد کے 10واقعات منظر عام پر آئے۔

تقریباً 20 احمدیوں کو ان کی مذہبی شناخت کے باعث نشانہ بنا کر ہلاک کردیا گیا۔

کراچی میں کم ازکم چھ گرجاگھروں پر حملہ کیا گیا۔ ان میں سے دو کو اکتوبر میں دس دنوں کے دوران نشانہ بنایا گیا۔

اظہار رائے کا پس منظر

2012میں پاکستان میں کم ازکم 14صحافیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

گوشوارہ آزادی صحافت کے مطابق پاکستان کا شمار مسلسل دو برسوں سے صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں ہے۔ اس حوالے سے 179ممالک کی فہرست میں پاکستان کا درجہ 151ہے۔

اجتماع کی آزادی

پُرتشدد اجتماع اور مظاہروں کے رجحان میں اضافہ ہوا اور اسے عوام کے حق اجتماع کو محدود کرنے کے لیے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔

بلوچستان میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے افراد نے متعدد بار اپنے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج کیا۔

خواتین

پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی کی شرح فیصد کے لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر باون(52) رہا۔ رہورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ٹریڈ یونینوں میں خواتین کی شرح نمائندگی دو فیصد رہی۔

یونیسکو کے مطابق کم ازکم 51لاکھ پاکستانی بچے سکول میں داخل نہیں تھے جس میں سے 63فیصد لڑکیاں تھیں۔

فائل تصویر رائٹرز
فائل تصویر رائٹرز

2012میں تقریباً 913لڑکیوں کو عزت کے نام پر قتل کیا گیا۔ ان میں کم ازکم 99کمسن لڑکیاں شامل تھیں۔

خیبرپختونخوا کے اضلاع چارسدہ اور مردان میں 2012میں بیاہی جانے والی خواتین میں سے 74فیصد کی عمر 16برس سے کم نوٹ کی گئیں۔

بچے

شیرخوار بچوں کی شرح اموات اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں معمولی کمی دیکھی گئی لیکن پاکستان ابھی بھی دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک سے پیچھے ہے۔

پولیو، ایک ایسی بیماری جس سے پوری دنیا میں صرف دو ممالک متاثر ہیں سے پاکستان کے بیس اضلاع میں 58واقعات سامنے آئے۔

پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر تھا جہاں پانچ سے نو سال تک کی عمر کے بچوں کی بڑی تعداد سکول نہیں جاتی ۔

2012کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے 1573واقعات منظر عام پر آئے۔

تقریباً ایک کروڑ بچے چالڈ لیبر کا شکارتھے۔

  پولیو، ایک ایسی بیماری جس سے پوری دنیا میں صرف دو ممالک متاثر ہیں سے پاکستان کے بیس اضلاع میں 58واقعات سامنے آئے۔

محنت

پاکستان کو تاریخ کی بدترین صنعتی حادثے  کا سامنا کرنا پڑا جب کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں کم ازکم 270افرادجاں بحق ہوگئے۔

سالانہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ ملک کی 60فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے، بنیادی ڈھانچے میں موثر سرمایہ کاری اور جدت کاری کی کمی، زرعی پیداواری لوازمات کی قیمتوں میں اضافہ اور کسانوں کو مطلوب فنی مہارت کی فراہمی میں ناکامی پیداوار میں کمی کا سبب بنے رہے۔

تعلیم

ایچ آرسی پی کی دوہزار بارہ کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں شرح خواندگی کا تناسب 58فیصدرہا۔

کم ازکم 121سکولوں کو ان دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جو تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔

2012-13کے بجٹ میں پرائمری تعلیم کے لیے 71 ارب، 60 کروڑ روپے اور ثانوی تعلیم کے لئے 69 ارب 40 کروڑ روپے مختص کئے گئے جوکہ (MDGS) کو پورا کرنے کے لیے انتہائی کم تھے۔

پرائمری سکول کے 25بچوں میں 22کا فیل ہونے یا پانچویں جماعت سے قبل سکول چھوڑنے کا امکان تھا۔

پاکستان کے 10.9فیصد سکول مناسب عمارتوں سے محروم تھے، 37.7فیصد چار دیواری سے محروم تھے، 33.1 فیصد میں پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیں تھی، 36.9فیصد میں لیٹرین نہیں تھیں اور 59.6فیصد سکولوں میں بجلی نہیں تھی۔

دوہزاربارہ اور صحت

2012-13کے مالی سال میں شعبہ صحت کے لیے مختص فنڈز میں کمی کرکے جی این پی کا صرف 0.2فیصد (سات ارب، چوراسی لاکھ پچاس ہزارمختص کیا گیا۔

پاکستان میں نوے لاکھ کے قریب افراد نشے کے عادی تھے اور یہ تعداد مزید بڑھ رہی تھی۔ نشے کے عادی بیس لاکھ افراد کی عمریں پندرہ سے پچیس سال کے درمیان تھیں اور نشے کی عادی خواتین کی تعداد دو لاکھ تھی۔

فائل تصویر اے پی ۔
فائل تصویر اے پی ۔

دنیا کے ٹی بی سے متاثرہ 22ممالک میں پاکستان چھٹے نمبر پر تھا۔

ملیریا کے سالانہ سولہ لاکھ کیسز منظر عام پر آئے۔ ہر نو خواتین میں سے ایک چھاتی کے کینسر کے خطرے کا شکار تھی جس کے نتیجے میں ہر سال چالیس ہزار اموات واقع ہوتی ہیں جوکہ جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔

   پاکستان میں ہر سال چالیس ہزار اموات واقع ہوتی ہیں جوکہ جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔

ماحولیات

 ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلقہ قومی پالیسی کی منظوری دی۔

ماحولیاتی انصاف کی فراہمی کے لیے پاکستان بھر کی ہائی کورٹس میں سبز بینچ تشکیل دیئے گئے۔ تاہم مذکورہ بنچوں میں دائر شدہ مقدمات میں سے صرف پندرہ فیصد کافیصلہ کیا گیا اور عائد شدہ جرمانوں میں سے بیس فیصد وصول کئے جاسکے۔

لاہور، کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں نصب 10فضائی آلودگی مانیٹرز بند ہوگئے جس کے بعد فضا کے معیار کے مشاہدے کے لیے طریقہ کار تشکیل دینے کے لیے حکومتی جانب سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کینجھر جھیل کے پانی کو ’کیچڑ زدہ ارضیات پر رامسر میثاق‘ کے تحت کیچڑزدہ زمین قرار دیا اور اسے پینے کے لیے ناموزوں قرار دیا ہے۔

مہاجرین

اگرچہ 2012میں 83000افغانیوں کو ان کے ملک افغانستان بھیجا گیا تاہم 16لاکھ رجسٹرڈ اور دس لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔

2012میں کم ازکم 800افغانیوں کو فارنرز ایکٹ کے تحت پاکستان میں بغیر قانونی دستاویزات کے رہائش پذیر ہونے پر تحویل میں لیا گیا۔

1971سے بنگلہ دیش میں پھنسے ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

کم ازکم 757,996پاکستانی خاندان کشیدگی کے باعث اندرون نقل مکین بنے رہے۔

من سون کے سیلاب اور تھرپارکر میں خشکی نے لاکھوں افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی اصل رپورٹ دو سو تینتالیس صفحات پر مشتمل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں