فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

اطلاعات ہیں کہ بھاری شرح منافع کے نام پر ایک سرمایہ کار اسکیم چلائی جارہی ہے، جس کو چلانے والے عناصر میں سے، بعض مساجد سے بھی منسلک ہیں اور انہیں استعمال بھی کررہے ہیں۔

اسکیم نے ڈبل شاہ کی یاد تازہ کردی مگر اُس کے گھوٹالے اور اِس میں فرق یہ ہے کہ، اسے شریعت کی منظوری کا لبادہ پہنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

اس اخبار میں شائع شدہ ایک حالیہ خبر نے ایسی اسکیم پر روشنی ڈالی ہے جسے بعض علاقوں کی مساجد کے ذریعے فروغ دیا جارہا ہے۔

اسکیم کو 'مشارِکہ' کا نام دیا گیا ہے، جس میں 'سرمایہ کاروں' کو ایک سو بیس فیصد منافع کی پیشکش کی جارہی ہے۔

اس طرح کی سرمایہ کاری کو اس لیے اسلامی قرار دیا جاتا ہے کہ منافع کی بنیاد نفع اور نقصان پر رکھی جاتی ہے۔

یہ بات اسے مزید پریشان کن بناتی ہے کہ ایسا عمل جو کسی قسم کے قواعد و ضوابط سے ماورا ہو، وہ دھوکا ہوتے ہیں، تاہم ریاست کو قانونی اور اخلاقی طور پر ایسی ہر کارروائی کا حق حاصل ہے جو اس طرح کی اسکیموں میں سرمایہ کاری کرنے والے عام سرمایہ کاروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بناسکے۔

اس کا مقصد یہ نہیں ہوسکتا کہ اُن عناصر کی حفاظت کی طرف توجہ دی جائے جو لوگوں کو پُرکشش منافع کا لالچ دے کر اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس طرح اب تک 'منافع' کی جو بڑی شرح لوٹائی جارہی ہے تو وہ صرف اس لیے کہ لوگ بڑی تعداد میں اس مشکوک منصوبے میں اپنا شرمایہ شامل کرسکیں۔

جو بات سارے معاملے میں شیئر نہیں کی جارہی، وہ یہ کہ اکھٹا کیے گئے سارے فنڈز کس طرح استعمال ہورہے ہیں۔

سرمایہ کاری پر جتنا بھاری شرح منافع دیا جارہا ہے، اس کی روشنی میں یہ ضروری ہوچکا کہ اس اہم بات کو سمجھا جائے۔

جو پریشان کرنے والی بات نہایت غور طلب ہے وہ یہ کہ نقصان کی صورت میں سرمایہ کار بھی حصے دار ہوگا۔ منافع کی طرح اس میں بھی وہ بھرپور شریک ہے۔

ابتدائی اطلاعات میں جو بات سامنے آئی ہے، اس کے مطابق اس طرح کی اسکیمیں اب تک پچاس ارب روپے حاصل کرچکی ہیں، جس کا مطلب کہ یہ ڈبل شاہ کے گھوٹالے سے بھی کہیں بڑا معاملہ ہے۔

کوئی بھی باضابطہ کاروبار اپنے سرمایہ کار کو اتنی بھاری شرح منافع ادا نہیں کرتا۔ یہ بھی سوال ہے کہ ان اسکیموں میں سرمایہ کاری پر لوگوں کو راغب کرنے کے لیے مساجد کا استعمال کس طرح کیا جارہا ہے۔

یہ نہایت ضروری ہوچکا کہ فوری طور پر ان سرمایہ کار اسکیموں کی جانچ پڑتال کی جائے اور انہیں قواعد و ضوابط کے تحت لایا جائے۔ تجربہ یہی رہا کہ ایسی اسکیموں کا انجام ہمیشہ غریب سرمایہ کاروں کے آنسوؤں پر ہی ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں