فلم 'گرم ہوا' میں کرادر ادا کرنے والے بلراج ساہنی۔

تقریباَ تین دہائی پہلے اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تھی جس کے بعد اچانک ہماری تیس سال قبل حاصل ہوئی آزادی نے اپنے معنی کھو دیئے۔ اگرچہ، ہندی سنیما کبھی آزادی منانا نہیں بھولتا، لیکن وہ ایمرجنسی اور اس طرح کے دیگر واقعات کو، جو ہماری آزادی کو خطرے میں ڈالتے ہیں، بھول گیا ہے۔

ہندی سنیما میں حقیقت کو اس کی سب سے شفاف صورت میں ترجیح دی جاتی ہے۔  کئی مرتبہ اسے بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے اور جو چیز جیسے ہوتی ہے اسے ویسے دکھانا بالی ووڈ پسند نہیں کرتا۔ ایسا نہیں ہے کہ چھبیس جون انیس سو پینسٹھ سے لے کر اکیس مارچ انیس سو سرسٹھ کے درمیان اکیس ماہ کے عرصے نے فلمی اداکاروں کی زندگیوں پر اُس طرح اثرات مرتب نہیں کیئے جس انداز میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے تھے۔

کشور کمار کے گانوں اوران کے آل انڈیا ریڈیو اور سرکاری ٹیلویژن نیٹ ورک دوردرشن  پر آنے پر پابندی لگا دی گئی تھی کیونکہ انہوں نے دہلی سے ملنے والی ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔  اسی طرح مشہور اداکار شتروگھن سنہا کی فلموں پر بھی قدغن لگی کیونکہ وہ جے پرکاش نارائن کے ساتھی تھے، جنہوں نے اندرا گاندھی کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی تحریک شروع کی تھی۔

ایمرجنسی کے اس دور میں کچھ نے گھٹنے ٹیک دئیے، بعض مزاحمت میں اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ دیو آنند جیسی شخصیت نے حکومتی زیادتیوں کا مقابلہ کیا ۔

ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کے معمار، سنجے گاندھی کی مدح سراہی نہ کرنا انہیں مہنگی پڑی، حکومت نے میڈیا کو مجبور کر دیا کہ وہ ان پر پابندی لگا دے ۔  جب انہوں نے اس وقت کے وزیر اطلاعات سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہیں بتایا گیا کہ 'اقتدار میں موجود حکومت کی حمایت میں بات کرنا اچھا ہوتا ہے'۔ بعد ازاں، آنند  نے ایک حکومت مخالف سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ۔

کیا ایسے سینما سے کسی حقیقی شے کی توقع کی جاسکتی ہے جس کا وجود راہِ فراریت پر مبنی ہو؟ ستر کی دہائی میں اس وقت بہت سی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں جب ہندی سنیما پچاس کی دہائی کی آئیڈیلزم اور ساٹھ کی رومانویت کو چھوڑ کر آگے بڑھا۔

ارد گرد کے حالات سے متاثر ہو کر ہندی سنیما نے سلیم جاوید کی فلموں کے 'اینگری ینگ مین'  جیسے کرداروں کو جنم دیا اور آرٹ  سینما کی تحریک سامنے آئی۔ اس دور میں'گرم ہوا' (۱۹۷۳) جیسی فلم بنی جس میں تاریخ کو مختلف زاویوں سے دکھایا گیا، اسی طرح 'انکر' (۱۹۷۵) میں ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا ترغیب دی گئی اوران کے درمیان' زنجیر' (۱۹۷۳) اور 'دیوار' (۱۹۷۵)جیسی فلمیں بھی سامنے آئیں جنہوں نے کمرشل ہونے کے باجود اپنی آرٹ فلم ہونے کی حیثیت نہیں کھوئی۔ پھر اس نئی تحریک کے باجود ایسا کیا ہوا کہ فلم ساز ایمرجنسی کے نفاذ کے پیچھے حقائق کو پردہ اسکرین پر لانے سے کتراتے رہے ؟

مبینہ طور پر اندرا گاندھی کی زندگی پر مبنی، گلزار کی فلم 'آندھی' (۱۹۷۵) حکومت کی مہربانیوں سے ہر جگہ  نمائش کیلئے پیش نہ کی جا سکی ۔ اس پر انیس سو ستترمیں جنتا حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے تک پابندی عائد رہی ۔ ہلکی پھلکی طنز و مزاح پرمبنی فلم 'قصہ کرسی کا' (۱۹۷۷) کی تمام ریلیں تباہ کئے جانے کے بعد فلم سازوں  نے اس حوالے سے از خود پابندی عائد کر لی۔

متاثرہ فلم میں حکومت کے انتظامی امور پر شدید تنقید کی گئی تھی، مگر جلتی پر تیل کا کام یہ عنصر بنا کہ جنتا پارٹی کے رکن امرت نایاتا  اس فلم کے خالق تھے ۔ ایمرجنسی کے تاریک دور میںسنجے گاندھی سے ان گنت مظالم منسوب رہے لیکن وہ صرف اسی کیس میں گرفتار کئے گئے۔ اس کے بعد ملک میں اگر ایمرجنسی کے موضوع پر فلم بنی بھی تو تین دہائیوں کے بعد۔

ایمرجنسی کے دوران ذاتی تجربات پر مبنی سدھر مشرا کی 'ہزاروں خواہشیں ایسی' (۲۰۰۵)واحد فلم ہے جو اس دور کے خوفناک حقائق منظرِ عام پر لائی ۔ کمرشل ہندی سنیما کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اکثر اوقات مسئلے کے مجوزہ حل کو ہی  اصل حل سمجھ بیٹھتے ہیں۔

آپ حقیقی موضوعات پر مبنی کوئی بھی بڑی ہندی فلم اٹھا کر دیکھیں، فلم کا ہیرو پورےنظام کو چیلنج کرتا اور تمام مسائل کو خود حل کرتا نظر آئے گا۔ مشرا نے فلم  'ہزاروں خواہشیں ایسی' میں پیغام پہنچانے کے بجائے اس زمانے کے تین لوگوں کی زندگی کی کہانی سنائی ہے۔  بدعنوانی کے موضوع پر بنی فلم میں پروڈیوسر ناظرین کو مسئلے کا ایک بنا بنایا حل فراہم کرسکتا ہے مگر ایمرجنسی پر بنی  فلم میں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ کیا مسئلے کا حل نہ دے پانا ہی کسی فلم ساز کو فلموں کے ذریعے حقیقت پر تبصرہ کرنے سے روکتا ہے؟ 'گرم ہوا' سے لے کر 'پیپلی لائیو' (۲۰۱۰) تک، ہر اچھی فلم بڑے مسائل سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی مگراس طرح کی فلموں میں فلم ساز کی توجہ کا مرکز چھوٹا مسئلہ رہتا ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ ایسی فلموں میں کسی بھی کردار کی پریشانیوں کا خاتمے کیلئے ایسا حل پیش نہیں کیا جاتا جسے آپ بڑے پیمانے پرعوام  پر لاگو سکیں ۔ گزشتہ کئی سال سے سنیما کی آزادی بالی وڈ میں سنیما کی حقیقت بن گئی ہے۔ ایمرجنسی کے حوالے سے فلم سازوں کے اس طرح کے رویے کی وجہ نہرو اور گاندھی خاندان کو نالاں نہ کرنا  بھی ہوسکتا ہے۔ بالی وڈ کی مجموعی ذہنیت کچھ ایسی ہے کہ واضح اور قابل قبول کو اس طرح شیریں انداز میں پیش کیا جائے کہ ناظرین کو حقیقت یا سیاسی موضوعات کے بارے میں کوئی پرواہ ہی نہ رہے۔ آپ بھگت سنگھ پر ایک سال میں پانچ فلمیں بنانے کا کیا جواز پیش کرسکتے ہیں؟ اور ان پانچ فلموں میں سے کسی میں بھی یہ تردد نہیں کیا گیا کہ شہید کے مہاتما گاندھی کے حوالے سے نظریات کیا تھے ؟

شیام بینگال کی فلم 'نیتاجی سبھاس چندرا بوس: دی فرگوٹن ہیرو' (۲۰۰۵) میں تاریخ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح، کیتن مہتا کی سردار پٹیل کی خوردونوش پر فلم 'سردار' (۱۹۹۳) میں آئرن مین کے نہرو کے ساتھ تعلقات کو نظرانداز کردیا گیا۔ بالی وڈ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد پر مبنی فلمیں تو بناتا رہتا ہے لیکن اس آزادی کو قائم رکھنے کی جدوجہد کو موضوع بنانے سے کتراتا ہے ۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ہندی سنیما شکیل بدایونی کےان الفاظ کے حقیقی معنوں کو سمجھے،

‘اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹا سکتے نہیں، سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے۔۔۔’


گوتم چنتمانی ایوارڈ یافتہ ڈاکیومنٹری فلم ساز اور رائٹر ہیں۔ @gchintamani

تبصرے (0) بند ہیں