فائل فوٹو --.

انتخابات میں کئی جگہوں پر ہونے والی بےقاعدگیوں پر اختلافات راۓ ہونے کے باوجود 11 مئی کے انتخابات جمہوریت کے لئے پاکستانیوں کی جدوجہد کو ایک قدم اور آگے لے گۓ ہیں-

اس بات کا مثبت پہلو لوگوں کا اپنی نمائندہ حکومت پر بارہا ایمان ہے- انہوں نے موت کے دستوں اور ساتھ ہی مذہب کے مبلغوں کو نظرانداز کر دیا اور جوق در جوق پولنگ اسٹیشن پنہنچ گۓ.

ایسا تو پچھلی چار دہائیوں میں بھی نہ ہوا تھا- جمہوریت کی پکار کا جواب شہری اور دیہاتی دونوں علاقوں سے دیا گیا، کسی نے بھی انتخابی عمل سے باہر رہنا منظور نہ کیا- ان میں نۓ چہروں بشمول خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی- یہ سب پاکستانی نظام کے لئے ایک اچھا شگون تھا-

بہرحال ان مشہور انتخابات کی خوشیاں، بہت سے امیدواروں کے راۓ دہندگان کے انتخاب کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے کسی حد تک کم ہو گئیں- 100 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں ردوبدل نے انتخابات کی شفافیت پہ سنگین شکوک پیدا کر دیے ہیں-

وہ جو کسی بھی حالت میں جیتنا چاہتے تھے انکو، انکے حریفوں کی غیر حاضری یا کمزوری اور پولنگ کے عملے یا پولیس کی چشم پوشی سے مدد ملی جن پر نہ تو نگران حکومت نہ ہی الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار تھا-

ECP کو چاہیے کہ قانون کے مطابق بے قاعدگیوں کے حوالے سے تمام شکایات سے جتنی مستعدی سے ہو سکے نمٹے، کیوں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں طاقت کا توازن بگڑنے کا خدشہ ہے-

متاثرہ جماعتوں کا شانت ہونا ایک انہونی ہی ہوگی لیکن اگر اس تجربے سے جمہوری ثقافت کو تقویت مل سکتی ہے تو موجودہ اختلافات خوش آئند ہونگے- اس سال کے انتخابات میں نوجوانوں کے کردار پر بہت کچھ کہا گیا ہے، لیکن نوجوانوں نے تمام اہم انتخابات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے-

1945-1946 کے تاریخی انتخابات میں طلبہ نے مسلم لیگ کے محافظ دستے کا کام کیا تھا، اسی طرح مشرقی بنگال، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے طلبہ نے 1970 تک اپنے علاقے کے انتخابات میں حصّہ لیا تھا-

1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی پنجاب میں فتح کا سہرا ان نوجوانوں کو گیا جنہوں نے کچھ غیر حاضر امیدواروں کی طرف سے رضاکارانہ طور پر انتخابی ذمہ داریاں اٹھائیں-

جیسا کہ ماضی کے انتخابات میں نوجوان رضاکاروں کا تعلق معاشرے کے پسماندہ حصّوں سے تھا، اس سال کے انتخابات میں جو نوجوان نمایاں ہوئے انکا تعلق متمول درجے سے تھا جن کو اکثر اپنے سے نصف حیثیت والوں پر برتری رہی ہے-

اس گروپ میں نوجوان خواتین بھی شامل تھیں جن کو خوش آمدید کہا جانا چاہیے- اگر سیاسی جماعتیں ان نوجوانوں کی خدمات سے استفادہ کرتے رہیں اور انکی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا موقع دیں تو یہ جمہوری سیاست کے لئے بہترین سرمایہ کاری ہوگی-

بد قسمتی سے یہ امید کے انتخابات بلوچستان میں استحکام لائیں گے پوری نہ ہو سکی- پختون بیلٹ اور کوئٹہ میں تو انتخابات اچھے ٹرن آوٹ کے ساتھ پرامن اور منظم ہوئے لیکن بلوچ علاقوں میں صورتحال بے یقینی کا شکار تھی-

اگر ایک بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ ممکن نہ تھی تو حکومت، محافظ ادارے اور الیکشن کمیشن، راۓ دہندگان کو مایوس کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کے برابر سے ذمہ دار ہیں- بلوچستان کی ایک بڑی آبادی کو انتخابی عمل سے محروم کردینا نہ صرف احساس محرومی میں اضافہ کرے گی بلکہ آنے والی حکومت کے لئے معاملات اور مشکل کر دے گی-

مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو لاحق چیلنجوں کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس وقت جن بحرانوں کا ریاست کو سامنا ہے وہ کسی تصوراتی اڑان یا ماضی کے انتظامی مکر و فریب کے بہانوں سے حل نہیں ہوں گے، یہ تبھی ممکن ہے جب ہارنے والی جماعتوں سے سبق لیا جاۓ-

جیسا کہ منظم سیاسی جماعتوں کی فقدان کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کو پنپنے میں مشکلات پیش آئی ہیں، ایک ہی انتخابات میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کا ہار جانا کوئی عام بات نہیں ہے-

پیپلز پارٹی کو ہفتے کے دن جو شکست ہوئی وہ اتنی بری نہیں تھی جتنی 1997 کے انتخابات میں ہوئی جب اس نے قومی اسمبلی کی فقط 18 نشستیں حاصل کی تھیں، اور وہ سب سندھ سے تھیں جبکہ پنجاب سے صرف تین نشستیں حاصل ہوئی تھیں، بہرحال اس جماعت کی شکست مستقبل قریب کے میں آنے والے واقعات میں اہم کردار ادا کرے گی-

اس کے زوال کی وجوہات سب کو معلوم ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہی وجوہات کی بنا پر اس جماعت کے عہدوں میں تازہ ترین علیحدگیاں ہو رہی ہیں- اس کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ جماعت سے ناقابل قبضہ داروں کو نکالا جاۓ اور جماعت کی نئی اور بےداغ قیادت کی موجودگی میں صبر و تحمل کے ساتھ دوبارہ تشکیل کی جاۓ-

پیپلز پارٹی کے بعد سب سے بری ناکامی سے عوامی نیشنل پارٹی کو دوچار ہونا پڑا- اس میں شک نہیں کہ انتہا پسند ANP کی انتخابی مہم چلانے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے لیکن صرف بیرونی عناصر کو اس اسکی شکست کا ذمہ دار نہیں ٹھرایا جا سکتا- اسکی اصل قوت باچا خان کی میراث یعنی مشکلات کی صورت میں ہمت و جرات اور ذاتی اور عوامی زندگی کی سالمیت میں پوشیدہ تھی اور یہ ان دونوں کو بھول گۓ- اس میں دوبارہ جان ڈالنے کے لئے ایسے کارکنان کی ضرورت ہے جو نا صرف دیانتدار ہوں بلکہ جماعت کی ان خرابیوں کو دور کرنے کے حل بھی تلاش کریں جن سے ابھی جماعت دوچار ہے-

وہ جماعت جو شاید دوبارہ بحال نہ ہو پاۓ وہ مسلم لیگ-ق ہے- جس کی تخلیق کا واحد مقصد رٹائرڈ جنرل مشرف کے لئے سپاہی مہیا کرنا تھا، یہ جماعت ایک تاریخی غلطی بن کر رہ گئی ہے- اس کے کچھ پیروکاروں نے اپنی مادر جماعت مسلم لیگ-نون میں شمولیت اختیار کرلی اور باقی تحریک انصاف کے جھنڈے کے نیچے پناہ لے لی- کوئی نہیں جانتا کہ یہ جماعت سینیٹ میں کب تک اپنی بقا قائم رکھنے کی قوت رکھتی ہے-

سب سے اہم بات یہ کہ بہت سی پرانی جماعتوں کا زوال اور نئی جماعتوں کا قیام آج سے بہت پہلے ہو چکا ہوتا اگر پچھلی دہایئوں میں فوجی آمروں نے وقت کی سوئیوں کو چار بار پیچھے نہ گھما دیا ہوتا-

کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر سیاسی عمل کو جاری رہنے دیا جاۓ تو جماعتیں اپنی خامیوں پر قابو پانے میں ناکام نہ ہوں اور وہ تمام لوگ جو سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو برا بنا کر پھلے پھولے ہیں انکو اپنی ساکھ بنانے کے لئے شفاف راستے اختیار کرنے کو ملیں-


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں