فائل فوٹو —.
فائل فوٹو —.

فاٹا میں ڈرون حملوں پر بحث نیۓ سرے سے شروع ہو گئی ہے، اس حوالے سے پاکستانی ارباب اختیار کا جواب غور طلب ہے-

ڈرون کے حوالے سے بیانات کی بھرمار اس وقت شروع ہوئی جب ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ ڈرون، پاکستانی اہداف پر بیس سال تک اسی طرح جان لیوا بم برساتے رہیں گے-

اس رپورٹ کو فوراً بعد ہی مسترد کر دیا گیا اور صدر بارک اوباما کے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، واشنگٹن میں خطاب کے لئے بالکل مناسب فضا بن گئی- اور ان کا یہ اعلان کہ ڈرون کا استعمال کم کر دیا جاۓ گا اور یہ کہ سی آئ اے کو ڈرون پروگرام کی اجارہ داری سے محروم کر دیا جائے گا- بظاہر جتنے کا مستحق تھا اس سے زیادہ مطمئن کر گیا-

اس دوران اس 'عمل' کے خلاف پرزور آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں جس کو 'ریموٹ کنٹرول سے قتل' کا نام دیا گیا ہے- امریکی وکلاء براۓ سول آزادی نے ڈرون حملوں کے خاتمے کے لئے اپنے مطالبے کی ایک بار پھر تجدید کی ہے-

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی غیر قانونی حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں اور بین الاقوامی قانون توڑنے کی دوبارہ مذمت کی ہے- اور اب یو این کے ہائی کمشنر براۓ انسانی حقوق نے بھی ڈرون حملوں پر اعتراض کیا ہے-

اب یہ تو امریکا نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ ڈرون پروگرام سے پاکستانی ارباب اختیار خوش نہیں- دفتر خارجہ نے اس بات کا ایک بار پھر یہ بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ڈرون حملوں کی مخالفت کی ہے-

پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ملک کے سب سے طاقتور اور مستحکم ادارے کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہوے امریکا کو پاکستانی خودمختاری کے حقوق اور ڈرون اڑانوں کو روکنے کی ضرورت پر تاکید کی ہے- ساتھ ہی طالبان سے مذاکرات کی درخواست بھی کی-

ان کی اس پیشکش کو سراہنے میں ریاستی سیکرٹری جان کیری نے ذرا بھی دیر نہ لگائی-

مذکورہ بلا ممتاز شخصیات کے نظریات کے ساتھ ہی اس موضوع پر دو تفصیلی مطالعوں کا نوٹس بھی لیا جانا چاہیے-

واشنگٹن میں صدر اباما کی تقریر کے دوران میڈیا بینجمن نے جو رپورٹ پیش کی اس نے میڈیا بینجمن کی گزشتہ سال شائع ہونے والی کتاب 'ڈرون وار فیئر : کلنگ بائی ریموٹ کنٹرول' کی یاد دلا دی- جس میں انہوں نے اپنے اس تجربے کو بیان کیا ہے جس میں وہ ڈرون متاثرہ جگہوں پر گئیں اور کچھ معصوم متاثرہ لوگوں سے ملاقّت بھی کی-

وہ غیر جنگجوؤں کی ہلاکتوں پر بحث کے لئے دو ذرایع کا حوالہ دیتی ہیں- نیو امریکا فاؤنڈیشن کے مطابق 2004 سے لے کر 2011 تک 1717 سے 2680 تک لوگ ہلاک ہوۓ اور ان میں 293 سے 471 تک عام شہری تھے-

یو کے سے تعلق رکھنے والی بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم نے اسی زمانے میں شہری ہلاکتوں کا شمار 391 سے 780 تک بتایا ہے، جس میں 2372 سے 2997 تک اموات میں 175 بچے بھی شامل ہیں-

لیکن غیرجنگجوؤں کی ہلاکتیں مصنفہ کے خدشات میں سے صرف ایک ہے- وہ اس بات پر بھی بحث کرتی ہیں کہ ان میں سے کچھ، جن پر دہشتگردی کے لیبل لگایا گیا تھا شاید وہ اس کے مستحق نہیں تھے-

وہ ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتی ہیں- ڈرون بنانے کی بڑھتی ہوئی صنعت پر بھی تشویش کا اظہار کرتی ہیں اور یو ایس کے اس خوف پر بھی روشنی ڈالتی ہیں کہ بہت جلد دوسرے ممالک بھی ان شکاری جہازوں کا استعمال شروع کر دیں گے-

اس لحاظ سے پاکستانی حکومت/فوج کو یہ امید چھوڑ دینی چاہیے کہ امریکا انکو ڈرون یا اس کی ٹیکنالوجی منتقل کرے گا- میڈیا بینجمن ڈرون پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوے جنگی اصولوں کے بنیادی مسائل اور بین الاقوامی امن کے لئے ڈرون کے خطرات تک لے جاتی ہیں- پاکستان کو اس بحث میں ضرور حصّہ لینا چاہیے-

اس کے بعد معروف انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے اپنی رپورٹ شائع کی ہے، 'ڈرون: متھ اینڈ ریالٹی ان پاکستان'- اس رپورٹ میں اس بات پر دلیل دی گئی ہے کہ ڈرون حملوں نے دہشتگرد کم مارے ہیں جبکہ ان کی وجہ سے بہت زیادہ نوجوان دہشتگرد بنے ہیں- وہ یو ایس پر اپنا ڈرون پروگرام تسلیم نہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں (حیرت ہے آئ سی جی یہ کیسے کہہ سکتا ہے) اور پاکستان پر دوغلے پن کا-

آئ سی جی کی یہ درخواست کہ 'پاکستان اس بات کو یقینی بناۓ کہ اسکی اور یو ایس کی کاروائیاں، انفرادیت اور برابری کی بنیاد پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہوں'- ان کا کہنا ہے کہ امریکہ ڈرون حملوں کے قانونی جواز کو نظر اندازکرتا ہے اور ایک عملی سمجھوتے پر اکتفا کرتا ہے- 'یو ایس کو عدلیہ، افسران اعلیٰ اور قانون سازی کے واضح کردار کے لئے قانونی فریم ورک بنانا چاہیے اور ڈرون پروگرام کو سی آئ اے کے خفیہ آپریشن سے بدل کر فوج کی نگرانی میں چلنے والا پروگرام بناۓ جو کہ عدلیہ اور کانگریس کی بامعنی سطح پر نگرانی ہو-

یہاں پر لگتا ہے آئ سی جی، صدر اوباما کے ڈرون جنگ کے کنٹرول کو سی آئ اے سے پینٹاگون منتقلی کے اقدامات کی رپورٹ پر آس لگاۓ بیٹھی ہے-

یہاں ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا اس تبدیلی سے پاکستان کو کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں؟ اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو ایسی وجوہات موجود ہیں جن کی وجہ سے طالبان اور القائدہ سے متعلق معاملات پر حقیقی تجزیہ کرنے کے لئے امریکی افواج اور عدلیہ دونوں کی قابلیت اور صلاحیت پر شک کیا جاۓ-

آئ سی جی کی طرف سے سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ فاٹا میں سیاسی، قانونی اور معاشرتی و اقتصادی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے-

اب پاکستان کو کئی طرفہ الجھن کا سامنا ہے- ڈرون حملوں کے خلاف اسکا مقدمہ مناسب تفتیش کی کمی کا شکار ہے کہ انکا پاکستانی آبادی پر کیا اثر پڑ رہا ہے- یہ رکاوٹ تبھی ہٹ سکتی ہے جب سول سوسائٹی اور حکومتی نمائندوں پر مشتمل ایک آزاد کمیشن کے ذریعہ ڈرون پروگرام پر مکمل تحقیقات کرائی جائیں-

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ڈرون حملے اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک یو ایس کو اس کے بدلے میں کچھ دیا نہ جاۓ- حالانکہ ٹی ٹی پی نے اس حوالے سے خیرسگالی کا اظہار کیا ہے، نئی حکومت کے لئے یہ تقریباً ناممکن ہی ہوگا کہ وہ افغانستان میں عسکریت پسند کاروائیاں روک پائیں- اس لحاظ سے میاں نواز شریف کے طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں-

انکو شاید پتا چلے کہ ایسے بہت کم لوگ ہیں جو طالبان کی سخت شرائط پر کیے گۓ معاہدے کے بغیر کسی مذاکراتی تصفیے کی امید رکھتے ہیں-

کسی بھی پیش رفت کے لئے طالبان سے گفتگو پر انحصار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہی قبائلی آبادی کے حقیقی نمائندے ہیں، جو کہ بہرحال حقیقت میں درست نہیں- لہٰذا کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ بجاۓ طالبان سے بات کرنے کے، وسیع پیمانے پر قبائلی آبادی سے رجوع کیا جاۓ-

اس بات کا یقین ہونا ضروری ہے کہ آیا فاٹا میں پارٹی بنیاد پر ہونے والے انتخابات اور نۓ منتخب ایم این ایز کی پاکستانی مرکزی دھارے کی جماعت میں شمولیت نے کیا قبائلی آبادی کو اس اصلاحاتی ایجنڈا کو تسلیم کرنے کے لئے تیار کر لیا ہے؟

جیسا کہ آئ سی جی نے تجویز کیا ہے- قبائلی علاقوں میں استحکام لانے کے لئے طویل مدّتی منصوبوں کے بغیر، عسکریت پسندوں کے ساتھ امن کی اور ڈرون حملے روکنے کی کوششیں فقط مسئلے کے حاشیے کو ہی چھو پائیں گی اس کے مرکز تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گی-


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں