تصویر: ماہ جبین منکانی / ڈان ڈاٹ کام

کام دھندہ کرنے کی نہیں بچنے کی چیز ہے۔ اگر اس کا کوئی استعمال ہے تو اتنا کہ بجلی پانی کے بل ادا ہو جاتے ہیں، یا بہت ہوا تو وحشی طبیعت کے کسی باپ کو پورا دن بچوں سے دور کسی دفتر میں بند رکھا جا سکتا ہے۔

لیکن بل تو آتے ہی اس لیے ہیں کہ حکومتیں پہلے سے ہی زائد اسٹاف اور ناکارہ افراد سے بھرے اداروں میں مزید  بہت سے لوگوں کو کام پر رکھ لیتی ہیں لیکن ان سے کوئی کام نہیں کرواتیں۔

سو یہ لاکھوں افراد ایک ہی کام کیے جا رہے ہیں: حکومت کے نام پر پیسہ اکٹھا کرنا اور اسے آپس میں تقسیم کرنا۔ مثلاً اس ملک میں بجلی ہے، نہ گیس اور پانی، لیکن ان محکموں کے اہلکار بل بھیجنے، بل ادا نہ کرنے والے کو دھمکی دینے اور بل ادا کرنے والے کو اگلے ماہ زیادہ بڑا بل بھیجنے کا کام کیے چلے جا رہے ہیں۔

آج کے سائنسی دور میں یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ ایک مشین سے ٹکٹ خریدیں، پھر ایک بلا ڈرائیور ریل گاڑی میں سفر کریں، اپنی منزل پر پہنچ کر مشین کو ٹکٹ دکھائیں اور اپنا رستہ لیں۔ آپ نے ایک سہولت سے فائدہ اٹھایا اور اس کی قیمت بھی ادا کی لیکن کسی اہلکار کی ضرورت پڑی نہ ہی کوئی بل آیا۔ یہ ہوتی ہے خالص خدمت۔

ہمیں یہ صلاحیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا کہ ہم مشینیں بنائیں اور ان سے کام لیں۔ خود کام کرنا قدرت کے قوانین سے انحراف اور اس کی نعمتوں کا کفران ہے۔ اگر کوئی کام ضروری ہے تو وہ ہے مشینیں بنانے کا، سو بھلے لوگوں نے روبوٹ بنائے ہیں جو جھاڑو پونچا کرنے کے علاوہ بچوں کو سکول چھوڑ کر آتے ہیں اور رات کو گھر کی تمام فالتو بتیاں بھی بجھاتے ہیں، خود کار کارخانے بنائے ہیں جن میں ایک طرف سے خام مال ڈالو تو دوسری جانب سے تیار مال نکل آتا ہے، اور ایسی کمپنیاں بنائی ہیں جو مشینوں کی مانند کام کرتی ہیں۔

اور بھی بہت سے طریقے ہیں جنہیں استعمال کر کے سمجھدار لوگ کام سے نجات حاصل کرتے ہیں جبکہ مشینیں ان کے لیے دن رات کمائی کرتی رہتی ہیں۔

یہ اور بات ہے کہ پاکستان میں ایسے تمام سمجھدار لوگ ان خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں جن کے ملک ریاض سے قریبی مراسم ہیں۔ اگر آپ کو یہ سہولت میسر نہیں تو ظاہر ہے آپ مشین کا ایک چھوٹا سا پرزہ ہیں۔

آپ کو نہ صرف ابھی سے نوکری کرنی پڑے گی بلکہ زندگی بھر کرنی ہو گی اور شاید ایک سے زیادہ کرنے کی ضرورت بھی آن پڑے۔ لیکن پریشان ہوں آپ کے دشمن۔ میں ہوں نا آپ کا مشیر۔ ایسی نوکریاں بتاؤں گا جن سے پیسہ ملے گا لیکن کام نہیں کرنا پڑے گا۔ ایسا مالک بتاؤں گا جسے آپ جوتے کی نوک پر رکھیں لیکن وہ آپ کی تنخواہ اور مراعات ہر سال باقاعدگی سے بڑھاتا رہے۔

پہلے تو یہ جان لیجیے کہ نوکری میں ترقی اسی کو ملتی ہے جس کی دلچسپی کام کرنے میں نہیں کروانے میں ہو۔ جو محنت اور لگن سے کام کرتے ہیں انہیں ملتی ہے پینشن اور ریٹائرمنٹ پر حسن کارکردگی کا سرٹیفکیٹ۔ سو یاد رکھیے نوکری پیسے اور اختیارات کے لیے کی جاتی ہے کام کے لیے نہیں۔

اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو آپ کو حکومت سے بہتر مالک اور سرکاری نوکری سے بہتر ملازمت مل ہی نہیں سکتی۔ شاعر نے سرکاری نوکری کے تجربے کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے: موج ہے سرکار میں اور بیرون سرکار کچھ نہیں۔

بس ہشیاری یہ درکار ہے کہ اسے بزنس مان کر چلانا ہو گا۔ پہلا مرحلہ ہے نوکری تلاش کرنے کا۔ آسامی کلرک کی ہو یا ڈائریکٹر جنرل کی اس کے بارے میں دو باتیں معلوم کیجیے: نوکری دلوانے والا دلال کون ہے اور وہ اپنی خدمات کی کیا قیمت مانگ رہا ہے۔

یہ از حد ضروری ہے کہ آپ اس دلال سے بھاؤ تاؤ نہ کریں کیونکہ اتنی دیر میں کوئی اور اسے منہ مانگی قیمت دے کر نوکری حاصل کر لے گا۔ فرض کیجیے نوکری دس لاکھ میں ملتی ہے اور آپ کی جیب میں دس ہزار بھی نہیں، تو سود پر ادھار دینے والوں کی کمی ہے اس ملک میں؟

آپ پیسہ قرض پر اٹھائیں اور اس کی ادائیگی کی بالکل پرواہ نہ کریں، یہ کام کچھ نیک لوگوں کا ہے جو سائلین کہلاتے ہیں اور اپنی فائلوں کو پہییے لگانے کے عوض وہ چند مہینوں میں ہی آپ کا پورا قرض چکا دیں گے۔ اس کے بعد گاڑی، گھر اور گیراج، آپ صرف فرمائشیں کرتے جائیں، سائل انہیں پورا کرتے رہیں گے۔

اگر آپ ملک سے باہر ہیں اور وہاں کام کی غلامی کو دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں تو آپ کو پناہ ملے گی قریب ترین پاکستانی سفارتخانے میں، کیونکہ دیار غیر میں بھی ہماری حکومت اپنے اصول اور طور طریقے نہیں بدلتی۔ لہذا کام یہاں بھی نہیں کرنا پڑتا اور تنخواہ ملتی ہے ڈالروں میں۔

اور یہاں یہ گنجائش بھی موجود ہے کہ اگر کوئی آسامی خالی نہ ہو تو آپ ایک نئی آسامی تخلیق کر یا کروا سکتے ہیں، اور اگر سفارتخانے کا بجٹ تنگ ہو تو آپ ایک کرسی کے عوض یہ پیشکش بھی کر سکتے ہیں کہ آپ اپنے لیے خود کمائیں گے اور سفیر صاحب کے لیے بھی۔

تو آپ نکلیے سرکاری نوکری کی تلاش میں اور میں نجی شعبے میں ایسی نوکریاں ڈھونڈ کر لاتا ہوں جن میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن پیسہ اچھا ملتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

زامان Jul 13, 2012 09:16pm
بہت اچھا لکھا ہے۔ ہم سب بیکار ہیں۔