مشرف غداری کیس: تحقیقاتی ٹیم کو ٹھوس شواہد نہ مل سکے

21 نومبر 2013
اٹارنی جنرل کے برعکس تحقیقاتی ٹیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک مشرف کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔ —. فائل فوٹو
اٹارنی جنرل کے برعکس تحقیقاتی ٹیم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک مشرف کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے ہیں۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: اگرچہ حکومت نے نہایت اعتماد کے ساتھ سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر بغاوت کے الزام میں مقدمے کی سماعت کے لیے تین ججز پر مشتمل خصوصی عدالت تشکیل دے دی ہے، تاکہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے یہ کارروائی مکمل ہوسکے، تاہم اب تک ان کے خلاف ٹھوس ثبوت انوسٹی گیشن کمیٹی کے سامنے آنا باقی ہیں۔

حکومت نے چار افراد پر مشتمل ایک انوسٹی گیشن ٹیم 27 جون کو تشکیل دی تھی، جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ سابق فوجی حکمران کے خلاف شواہد اکھٹا کرے، اس ٹیم کے ایک رکن نے میڈیا کے نمائندوں کے ایک گروپ کو اندرونی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”اب تک کوئی ٹھوس ثبوت جمع نہیں ہوئے ہیں، جن سے جنرل مشرف کو ملزم قرار دیا جاسکے۔“

وفاقی حکومت پہلے ہی جرائم کے ترمیمی قانون برائے خصوصی عدالت ایکٹ 1976ء کے سیکشن فور کے تحت ایک خصوصی عدالت کی تشکیل کا اعلان کرچکی ہے،جو جنرل مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمے کی کارروائی کرے گی۔

یہ خصوصی عدالت، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب، بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی پر مشتمل ہے۔

انوسٹی گیشن کمیٹی کے اس رکن نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ اس کمیٹی نے کچھ لوگوں کے انٹرویو کیے تھے، لیکن عمومی طور پر متواتر درخواستوں کے باوجود متعلقہ حلقوں سے شواہد اکھٹا کرنے میں کسی قسم کی مدد حاصل نہیں ہوسکی تھی۔

لیکن انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہوجائے گی، جب ایک شکایتی درخواست خصوصی عدالت میں درج ہوجائے گی۔ انہوں نے بتایا ”تب ہم اس پوزیشن میں آجائیں گے، اور ان لوگوں کو طلب کرنے کے لیے خصوصی عدالت کے وارنٹ اور احکامات ہمیں حاصل ہوسکے ہیں، جن کے پاس شواہد موجود ہیں، لیکن وہ تفتیش کے ابتدائی مرحلے میں تعاون نہیں کررہے تھے۔“

اس سے پہلے جنرل مشرف کے حلقے سے قریب ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سابق صدر سینئر قانون دان شریف الدین پیرزادہ سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ ان کی قانونی ٹیم کی قیادت کریں اور خصوصی عدالت میں ان کا دفاع کریں۔

شریف الدین پیرزادہ کو ماضی میں فوجی بغاوت کے بعد تمام عبوری آئینی اقدامات (پی سی او) کے احکامات کے اجراء کا معمار کہا جاتا ہے، خاص طور پر بارہ اکتوبر 1999ء میں جنرل مشرف کی جانب سے نواز شریف کی حکومت کا تخت الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ تین نومبر 2007ء میں ہنگامی حالت کا نفاذ، جس میں آئین معطل کردیا گیا تھا، اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ایک سینیئر قانونی افسر نے ڈان کو بتایا کہ خصوصی عدالت سیکریٹری داخلہ کی جانب سے ایک بیان درج کرانے کے بعد سے کام کرنا شروع کردے گی اور جلد از جلد اپنی کارروائی کو مکمل کرلے گی۔

1994ء میں جاری ہونے والے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر کے تحت خصوصی عدالت میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ایک حتمی شکایت داخل کرنے کے لیے سیکریٹری داخلہ کو مرکزی شخصیت کے طورپر نامزد کیا گیا تھا۔

اس مقدمے کی کارروائی غداری کی سزا سے متعلق 1973ء کے ایکٹ کے تحت کی جائے گی۔ جس میں آئین کے آرٹیکل چھ کی وضاحت میں سزائے موت یا عمر قید کی سزا کی تجویز دی گئی ہے۔

دوسرے مرحلے میں حکومت خصوصی عدالت کے سربراہ سے مشورے کے بعد اس کے لیے ایک رجسٹرار کا تقرر کرے گی، اس مقدمے میں خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب ہیں۔ خصوصی عدالت کی جانب سے جنرل مشرف کو ایک نوٹس جاری کیے جانے کے بعد اگر ضروری ہوا تو انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک ہی وہ شخصیت تھے، جنہوں نے وزارت قانون کو چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ وہ خصوصی عدالت کے لیے ججوں کے نام تجویزکریں، درحقیقت پانچ ہائی کورٹ میں سے حکومت کے لیے مشکل ہوگیا تھا کہ پانچ میں سے تین ججوں کو نامزد کرے۔

انہوں نے کہا کہ سینئر قانونی افسر کی رائے تھی کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے نوٹیفکیشن جاری کیے جانے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکے گی، یہاں تک کہ سخت اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی تبدیلی غیر آئینی ہوگی۔

جب ان کے سامنے یہ نشاندہی کی گئی کہ خصوصی عدالت کی صدارت کرنے والے جسٹس فیصل عرب جنرل مشرف کی کارروائی سے براہ راست متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کردیا تھا، جبکہ جسٹس یاور علی، جسٹس خلیل الرحمان رمدے کے برادرِ نسبتی ہیں، تو انہوں نے کہا ”بعض ججوں کے متعلق اُٹھایا جانے والا یہ اعتراض بے اثر رہے گا اور حکومت خصوصی عدالت کی ازسرنو تشکیل پر غور نہیں کرے گی۔“

اے پی پی:

اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بدھ کو کہا کہ حکومت کے پاس جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے مضبوط شواہد موجود ہیں۔

سپریم کورٹ کی عمارت کے احاطے میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کی سزا یا تو سزائے موت ہے یا عمرقید اور صرف صدرپاکستان کے پاس ہی یہ اختیار ہے کہ وہ مجرم کو معاف کردیں۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف غداری کے مقدمے میں سوائے خصوصی عدالت کے کسی بھی عدالت سے ضمانت حاصل نہیں کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو فراہم کردیے جائیں گے، اس کے بعد وہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کرسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں