افغان مفاہمت

25 نومبر 2013
فائل فوٹو۔۔۔
فائل فوٹو۔۔۔

اگرچہ دنیا اور خطے کی توجہ اُس امریکا ۔ افغانستان سیکیورٹی معاہدے، جس کے تحت امریکی افواج کم از کم سن دو ہزار چوبیس تک افغانستان میں رہ سکیں گی اور آئندہ سال ہونے والے افغان صدارتی انتخابات پر، مرکوز ہیں، ایسے میں مستحکم افغانستان کے لیے سب سے اہم اور انتہائی سنجیدہ معاملہ یعنی افغان طالبان کے ساتھ مفاہمتی عمل کہیں پسِ پشت جاچکا۔

جمعرات کو اسلام آباد میں، افغان ہائی پیس کونسل کے نمائندوں کی وزیرِ اعظم سے ملاقات میں طے پایا ہے کہ جناب نوازشریف رواں ماہ کے اختتام پر کابل کا دورہ کریں گے۔ خیال ہے کہ اس دوران وہ یہ جائزہ لیں گے کیا خاموش پڑے افغان مفاہمتی عمل کو آگے لے کر بڑھا جاسکتا ہے۔

یا کم از کم، یہ یقینی بنانے کی کوشش ضرور کی جائے گی کہ آئندہ سال افغان صدارتی انتخاب کے بعد، مفاہمتی عمل میں پیشرفت کی خاطر، راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں تیزی لائی جاسکے۔

علاوہ ازیں، دیکھا گیا ہے کہ گذشتہ جون میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے ہی، جناب شریف اور ان کی ٹیم رسمی تکلفات میں پڑے بغیر، افغانستان کے حوالے سے مشاورتی عمل اور ملاقاتوں میں بہت زیادہ مصروف رہی ہے۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں فریقین کے لیے سلامتی اور استحکام کے بڑھتے معاملات پیچیدہ ہدف ہیں۔

افغانستان اور پاکستان، دونوں ہی کا بنیادی موقف رہا ہے کہ اُن کی سلامتی کے لیے خطرناک عسکریت پسندوں کے واسطے، مبینہ طور پر، دوسرے کی سرزمین محفوظ ٹھکانا ہے لیکن ٹی ٹی پی کے لیے بطور امیر مُلا فضل اللہ کے انتخاب کے بعد اب پہلی بار کچھ ایسا نظر بھی آرہا ہے۔

افغان طالبان طویل عرصے تک ڈیورنڈ لائن کے آر پار، آزادانہ نقل و حرکت کی سہولت سے فیض یاب ہوتے رہے اور اب ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو اپنا نشانہ بنارہی ہے۔

چاہے دونوں ملکوں کی قیادت یہ سمجھ لیں کہ سرحد پار تشدد کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں یا پھر آنے والے مہینے ظاہر کردیں گے کہ دونوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات، ایک مشکل سوال ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ دوسروں کے اس کھیل میں، ہر فریق کھودینے کی خاطر کھڑا ہے۔

کوئی بھی فریق اچانک کھیل کا رخ نہیں پلٹ سکتا، لہٰذا اکھٹے ہو کر چلیں اور ٹکڑوں میں بٹی تصویر کو ترتیب دے کر، افغان تاریخ کے اگلے مرحلے کی تشکیل کریں۔

اس ضمن میں شاید امید کرسکتے ہیں کہ کم از کم دونوں ہی ڈیورنڈ لائن کے آر پار عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں کی حوصلہ شکنی کریں گے۔

پاکستانی نقطہ نظر سے، دونوں ہی ریاستیں بہت کچھ لینے دینے کی پیشکش کرتی ہیں۔ افغان طالبان کو داخلی طور پر ملک کے مفاہمتی عمل میں شرکت کی طرف بڑھا کر، انہیں پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرے، ٹی ٹی پی کے قریب ہونے سے دور کیا جاسکتا ہے۔

یقینی طور پر افغانستان اور پاکستان، دونوں کو ہی اس بھیانک حقیقت سے واقف ہونا چاہیے: ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا اتحاد، دونوں ملکوں کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہوگا.

تبصرے (0) بند ہیں