اچھی کوشش لیکن۔۔۔

27 نومبر 2013
مولانا طاہر اشرفی نے فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے چودہ نکاتی ضابطہ اخلاق اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیا ہے۔ —. فائل فوٹو۔۔
مولانا طاہر اشرفی نے فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے چودہ نکاتی ضابطہ اخلاق اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیا ہے۔ —. فائل فوٹو۔۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا طاہر اشرفی کی جانب سے تجویز کردہ ضابطہ اخلاق متعدد اہم نکات کا حامل ہے، جن پر اگر عمل ہو تو پاکستان میں فرقہ واریت کم کرنے کی خاطر کارگر ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہاں ایک بہت بڑا 'اگر' سامنے کھڑا ہے۔

بعض سطحوں پر یہ لوگوں کے ان اقدامات کے خلاف دلیل لائے گا جیسا کہ مذہبی گروہ خود کو تشدد سے دور رکھیں، تکفیر کے مذموم عمل پر پابندی، نفرت انگیز تقاریر یا ایسے لٹریچر کا خاتمہ جن سے مذہبی شخصیات کی شان میں توہین کا پہلو نکلتا ہو حالانکہ بعض فرقوں کی جانب سے ایسا گستاخانہ عمل بڑے پیمانے پر جاری و ساری ہے۔

یہاں بنیادی سوالات یہ ہیں: یکساں طور پر یہ بات اہم ہے کہ اگر ایسا ضابطہ اخلاق اختیار کرلیا جاتا ہے تو کیا ریاست اسے نافذ کرے گی؟ کیا مختلف مکاتبِ فکر اور فقہوں سے تعلق رکھنے والے علما اس کی خلاف ورزی نہ کیے جانے کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے؟

ماضی میں بھی اس طرح کی کئی کوششیں کی جاچکیں، جن میں سے زیادہ تر مِلّی یکجہتی کونسل نے سن اُنیّس سو نوّے کی دہائی میں کی تھیں لیکن جیسا کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کا شیطانی چکر ثابت کرچکا، فرقہ واریت کے جن کو قابو کرنے کے لیے، اس طرح کے ضابطہ اخلاق کی تیاری اور نفاذ کی تمام ترکوششیں ناکامی سے ہی دوچار رہی ہیں۔

پہلے بنائے گئے تمام تر ضابطہ اخلاق کی ٹوٹ پھوٹ کے ذمہ دار وہ علما ہیں جو اپنی صفوں میں موجود اُن کالی بھیڑوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کرسکے جو عصبیت کو ہوا دے کر مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔

لہٰذا ایسے میں علما، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام فوری طور پر'دوسرے فریق' کے سر ڈال دیتے ہیں اور جب بات علما برادری کے اندر موجود عناصر کے مقابلے کی آتی ہے تو زیادہ تر خاموشی اختیارکرلیتے ہیں۔

اگر اسلامی نظریاتی کونسل مولانا اشرفی کا تجویز کردہ ضابطہ اخلاق اختیار کرتی ہے اور اگر اس کی کامیابی کا کوئی امکان نکلتا ہے تو پھر دو بنیادی باتیں کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اس سے قطع نظر کہ اُکسانے کے اس عمل میں پسِ پردہ کون ملوث رہا، حکومت کو فوری طور پر نفرت انگیز تقاریر اور منافرت پھیلانے والے لٹریچر کےخلاف کریک ڈاؤن کرنا ہوگا۔ سانحہ راولپنڈی اس کی نہایت عمدہ مثال ہے کہ کس طرح صرف مائیکرو فون کے غلط استعمال کے سبب حالات نہایت تیزی سے کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

دوئم یہ کہ علما اپنا کردار مزید غیر جانبداری سے ادا کریں۔ اگر خود ان کے اپنے مسلک یا فقہہ کے علما یا مبلغین بھی نفرت پھیلانے کے مرتکب پائے جائیں، تو جیّد علما کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر اس طرح کے علما کی مذمت کریں۔

خلاف وزری پر موثر کارروائی کی خاطر شیعہ اور سُنی، دونوں مسالک کے علما کے اتفاقِ رائے سے تیار کردہ طریقہ کار کے بغیر، مجوزہ ضابطہ اخلاق کی کامیابی کے امکانات کم ہی رہیں گے۔

اس اداریہ کو انگریزی میں پڑھیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں