جنیوا کانفرنس: باغیوں کا شرکت سے انکار

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2013
حلب میں چوپیس نومبر کو لی گئی اس تصویر میں شام باغی حکومتی افواج سے لڑرہے ہیں۔ اے ایف پی
حلب میں چوپیس نومبر کو لی گئی اس تصویر میں شام باغی حکومتی افواج سے لڑرہے ہیں۔ اے ایف پی

دمشق: شامی حکومت نےبدھ کے روز کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے تحت امن مذاکرات میں تو شریک ہوگی تاکہ جنوری میں منعقدہ اس کانفرنس سے امن کو کوئی راہ نکالی جاسکے لیکن وہ کسی بھی طرح اپنا اقتدار نہیں چھوڑے گی۔

پیر کے روز اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ شام میں جاری تین سالہ خانہ جنگی اور بے امنی کے خاتمے کیلئے جینوا میں اگلے سال بائیس جنوری کو ایک کانفرنس رکھی جارہی ہے جس میں پہلی بار بشارالاسد کی حکومت اور تمام باغی دھڑے شریک ہوں گے۔

یہ پہلی میٹنگ ہوگی جس میں باغی اور اسد حکومت کے اراکین آمنے سامنے ہوں گے۔

واضح رہے کہ اس تنازعے میں اب تک ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں ان میں نہ صرف ہزاروں بچے شامل ہیں بلکہ خواتین کی بے حرمتی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں ۔

تاہم اس کانفرنس میں شریک ہونے والے افراد کی حتمی فہرست کی تیاری اب بھی ایک مشکل کام ہے کیونکہ اسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کا اصرار ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شمولیت پر راضی تو ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ حکومت انسانی بنیادوں پر کچھ کام کرے اور اعتماد سازی کیلئے پہلے سیاسی قیدیوں کو رہا کرے ۔ لیکن یہ اعلان بھی چھوٹے باغی گروپ نے کیا ہے جبکہ مرکزی گروہ اب بھی مذاکرات پر آمادہ نہیں۔

بدھ کو جاری ایک بیان میں شامی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت امن مذاکرات میں شامل ضرور ہوگی۔

' ہم جنیوا اس لئے نہیں جارہے کہ اقتدار کسی کے ایک کے ہاتھ سونپ دیں، لیکن ہم ان سے ملنے جارہے ہیں جو ' شامی مستقبل کیلئے سیاسی عمل کی تائید کرتے ہیں،'

شامی اپوزیشن اور ان کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کا اصرار ہے کہ اسد کسی بھی طرح عبوری حکومت کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں۔

برطانیہ کا اصرار ہے کہ جنیوا کانفرنس کا مرکزی مقصد یہ ہونا چاہئے شامی عوام کو اپنے مستقبل اور آئیندہ حکومت کا مکمل اختیار ہونا چاہئے نا کہ کانفرنس ان کے مقاصد پورے کرے جو وہاں عوام کا خون بہارہے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل شام میں امن کیلئے بہت سی کوششیں کی گئیں لیکن وہ ناکام رہیں۔

شامی حکومتی اہلکاروں نے کہا ہے کہ وہ حکومت نہیں چھوڑیں گے جبکہ 2014 کے وسط میں ہونے والے انتخابات میں بھی اسد دوبارہ حصہ لیں گے۔

جنیوا ٹو کانفرنس پر فری سیرین آرمی نے کہا ہے کہ وہ جینیوا ٹو نامی اس امن کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ اس میں شرکت بے کار ہے۔

واضح رہے کہ اس کانفرنس کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ پہلی مرتبہ شامی حکومت اور اپوزیشن کسی میدانِ جنگ کی بجائے مذاکرات کی میز پر جمع ہوں گے۔

تاہم اس کانفرنس سے شرکت میں انکار کرتے ہوئے فری سیرین آرمی کے ترجمان نے کہا ہے اس انکار کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری نے اپنے پچھلے وعدوں کا پاس نہیں رکھا ہے۔

' بین الاقوامی برادری نے کہا تھا کہ وہ ہمارے لوگوں تک مدد فراہم کرے گی، عورتوں اور بچوں کو اسد کی جیلوں سے رہا کرائیں گی اور ہمارے شہروں اور دیہاتوں کا محاصرہ ختم کرنے میں مدد دیں گی،' ترجمان لوئے المقداد نے کہا۔

اس سے قبل جون دوہزاربارہ میں جینیوا ون نامی کانفرنس بھی ہوئی تھی جس میں شامی جنگ کے کئی فریقین شریک ہوئے تھے لیکن اس میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔

تازہ اطلاع کے مطابق منگل کو ایک بالکل نئے باغی گروہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ شامی حکومت کو ہٹا کر ملک کو ' اسلامی ریاست' کا درجہ دینا چاہتی ہے۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ وہ اقلیتوں کا خیال رکھیں گی اور ' حاکمانہ اندازِ حکومت' اختیار نہیں کیا جائے گا۔

اس گروپ کا نام کنویننٹ آف دی اسلامک فرنٹ ہے جو شام میں اپوزیشن کے سب سے بڑے گروپس میں سے ایک ہے جس کے دسیوں ہزاروں جنگجو شام کی گلی کوچوں میں لڑ رہے ہیں۔

مارچ دوہزارگیارہ میں شام میں صدر بشارالاسد کیخلاف پہلے پہل احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے اور اس کے بعد یہ ہلاکت خیز جھڑپوں میں تبدیل ہوگئے اور اب شام میں بڑے پیمانے پر لڑائی جاری ہے اور اس ملک سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرچکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں