”امریکا افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی اس خطے سے دور نہیں ہوگا“

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2013
جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی وزیرخارجہ کی نائب نیشا ڈیسائی بسوال نے واضح کیا کہ 2014ء میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد بھی ہم کہیں نہیں جارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو
جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی وزیرخارجہ کی نائب نیشا ڈیسائی بسوال نے واضح کیا کہ 2014ء میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد بھی ہم کہیں نہیں جارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو

واشنگٹن: جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی وزیرخارجہ کی نائب نیشا ڈیسائی بسوال نے منگل کے روز بتایا کہ 2014ء کے بعد جب اس کے منصوبے کے مطابق اس کی افواج زیادہ تر حصہ افغانستان کو چھوڑ دے گا، امریکا پاک افغان خطے سے لاتعلق نہیں ہوگا۔

اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری کی ضرورت پر بھی زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ اس سے ناصرف افغانستان میں استحکام پیدا ہوگا، بلکہ پورے خطے کے استحکام میں بھی مددملے گی۔

انہوں نے کہا کہ ”پاک افغان خطے کے ساتھ ہمارے تعلقات دیرپا ہیں۔ہم یہاں سے دور نہیں جارہے ہیں۔ ہم کہیں نہیں جارہے ہیں۔“

اپنے عہدے کا چارج لینے کے بعد یہ نیشا ڈیسائی کی جنوبی ایشیا کے میڈیا کے ساتھ پہلی بات چیت تھی، انہوں نے اپنی بات چیت میں بنگلہ دیش اور انڈیا میں انتخابات سے لے کر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء تک مسائل کی ایک طویل قطار کا احاطہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ”امریکا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مجموعی تعلقات میں کسی بھی قسم کی بہتری کی حمایت کرتا ہے اور ہم نے بات چیت کے ذریعے دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات کے آغاز کے ضمن میں نمایاں بہتری دیکھی ہے۔“

لیکن نیشا ڈیسائی نے یہ بات بھی واضح کردی کہ امریکا تنازعات کے حل کے لیے پاکستان اور ہندوستان کی حوصلہ افزائی کرے گااور براہِ راست ان کے معاملات میں ملؤث ہونے سے گریز کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”امریکا کی طویل عرصے سے چلی آرہی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کو کشمیر اور دیگر مسائل دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔یہ انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس عمل کی رفتار، گنجائش اور نوعیت کے ذریعے امن قائم کریں۔“

ہندوستانی نژاد نیشا ڈیسائی نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان باہمی روابط بشمول رواں سال کے شروع میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی ایک میٹنگ کا امریکا خیرمقدم کرتا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا کے دونوں پڑوسی ملکوں کو اپنی توجہ دوطرفہ تجارت میں اضافے پر مرکوز کرنی چاہیٔے، جو اس وقت دو ارب ڈالرز سالانہ ہےاور اس کو دس ارب ڈالرز سالانہ تک لے جایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ”میری پرورش ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ہوئی، مجھے اب بھی اپنے دادا یاد ہیں جو کابلی انار اور چمن کے انگور کا تذکرہ کرتے تھے۔“

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نیشا ڈیسائی نے کہا کہ گجرات کے وزیراعلٰی نریندرا مودی کے لیے امریکا کی ویزہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا”کوئی درخواست گزار امریکی ویزہ کےلیے درخواست دیتا ہے تب ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کو ویزہ دینا ہے یا نہیں۔“

امریکا گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے خلاف 2002ء کے پرتشدد فسادات میں مودی کے مبینہ طور پر ملوث ہونے پر امریکی ویزہ جاری کرنے سے انکار کرتا رہا ہے، اس فسادات میں دو ہزار مسلمان ہلاک ہوگئے تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر مودی کو ہندوستان کا وزیراعظم منتخب کرلیا گیا تو کیا پھر بھی امریکا انہیں ویزہ دینے سے انکار کرتا رہے گا، تو نیشا ڈیسائی نے کہا کہ سرکاری حکام کے لیے ویزہ پالیسی مختلف ہےاور عام شہریوں کے لیے مختلف، سرکاری حکام کے لیے سفارتی ویزہ جاری کیا جاتا ہے۔

تاہم نیشا ڈیسائی نے زور دیا کہ امریکا اور ہندوستان کے تعلقات گہرے اور وسیع البنیاد ہیں، اور انہیں کسی خاص معاملے سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ تعلقات عالمی نوعیت کے ہیں۔“

نیشا ڈیسائی نے کہا کہ امریکا اور ہندوستان کا نیوکلیئر معاہدہ التوا کا شکار نہیں ہے، اور دونوں فریقین نے اس پر مختصر بات چیت کی ہے، لیکن ان تعلقات میں اضافے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ہندوستان افغانستان کے اندر اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا، اور انہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا کہ ہندوستان اور پاکستان کو افغانستان کے اندر اپنے اثرورسوخ کا ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بنگلہ دیش کی دونوں اہم سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ مل کر اس سلسلے میں کوشش کریں کہ ان کے ملک کو سیاسی تشدد نے احاطہ کرلیا ہے، اس کو کیسے ختم کیا جائے اور اگلے انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور تشدد سے پاک انعقاد کو یقینی بنائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں