چوہدری نثار کے نادرا چیئرمین پر انتظامی نافرمانی کے الزامات

06 دسمبر 2013
وزیرداخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں نادرا کے چیئرمین پر بغیر اجازت میڈیا کو رپورٹس لیک کرنے کے الزامات بھی عائد کیے۔ —. فائل فوٹو
وزیرداخلہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں نادرا کے چیئرمین پر بغیر اجازت میڈیا کو رپورٹس لیک کرنے کے الزامات بھی عائد کیے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی اسمبلی کے موسمِ سرما کے سیشن کا آغاز جمعرات پانچ دسمبر کو خاصی گرما گرمی کے ساتھ ہوا، حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے نادرا کے چیئرمین کی برطرفی کے حوالے سے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس برطرفی سے گیارہ مئی کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق ان کے شکوک وشبہات کو تقویت ملی ہے۔

مذکورہ عہدے دار کے خلاف ایک سخت چارج شیٹ وزیرداخلہ چوہدری نثار کی طرف سے تیار کی گئی تھی، حالانکہ یہ معاملہ دو اعلٰی عدالتوں میں زیرِ سماعت تھا۔

پیر کو برطرف ہونے والے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین طارق ملک قومی اسمبلی اور پنجاب و سندھ میں صوبائی اسمبلیوں کے کئی انتخابی حلقوں کے متنازعہ ووٹوں کی تصدیق کا کا م سونپا گیا تھا، اور ان کی معطلی اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے کی گئی تھی۔یہ تمام معاملات قومی اسمبلی کے اس سیشن کے افتتاحی اجلاس پر غالب رہے۔

دونوں جانب سے شورشرابہ کچھ کم ہوا تو ایوان کو معلوم ہوا کہ اس دن کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت نے ہائی کورٹ کے احکامات کو مسترد کرنے کی ایک اپیل سپریم کورٹ کے سامنے جمع کرادی ہے۔

قائد حزبِ اختلاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید احمد شاہ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور جماعت اسلامی کی پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ سمیت تمام رہنماؤں نے کہا کہ حکومت کے اس اقدام کے پسِ پردہ اس کے مذموم مقاصد ہیں۔ انہوں نے حوالہ دیا کہ مذکورہ عہدے دار کی برطرفی کی خبر آدھی رات کو سامنے آئی جبکہ نادرا لاہور کے انتخابی حلقے کے ووٹروں کے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کررہی تھی۔

پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے حکومت کی اس کاروائی کے حوالے سے خصوصاً اس کے وقت کو لے کر ناگواریت کا اظہار کیا، جس کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان کے اُن شکوک وشبہات کو اس اقدام سے تقویت مل رہی ہے، جن شکوک کا اظہار انہوں نے عام انتخابات کے منصفانہ ہونے کے بارے میں کیا تھا، اگرچہ دونوں ہی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرلیے تھے۔

لیکن چوہدری نثار ان حملوں کے لیے پوری تیاری کرکے آئے تھے اور جب انہوں نے ایک زیرِ سماعت معاملے کے حوالے سے ابتدائی الجھنیں دور کردیں تو حکومتی بینچوں کی جانب سے بار بار ڈیسک بجاکر حوصلہ افزائی کی گئی۔

انہوں نے نادرا کے چیف پر یکے بعد دیگرے زبردست الزامات عائد کیے، انہوں نے پچھلی حکومت کی جانب سے انتہائی خطیر تنخواہ کے عہدے پر ان کی تقرری کو ہدف تنقید بنایا،تین سال کے معاہدے کا اگست 2015ء میں اختتام ہونا تھا۔ انہوں نے انتظامی نافرمانی اور تصدیقی عمل کے بارے میں میڈیا کو بغیر اجازت مسلسل رپورٹس لیک کرنے کے الزامات بھی عائد کیے۔

اور ایک مرحلے پر تو وزیرداخلہ نے میڈیا کے سچ اور جھوٹ میں فرق نہ کرنے کی شکایت بھی کی، انہوں نے کہا ”نادرا کے چیئرمین کس طرح انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں، اس کی ذمہ دار تو وزارت داخلہ ہے۔“

اپوزیشن رہنمانے یاد دلایا کہ وزیرداخلہ نے ایوان کے ایک پچھلے اجلاس میں چالیس انتخابی حلقوں کے ووٹروں کی جانچ پڑتال کی پیشکش کی تھی، حالانکہ پی ٹی آئی نے لاہور کے صرف چار انتخابی حلقوں کی نشاندہی کی تھی، تو چوہدری نثار نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں تھا، وہ خود اپنی صوابدید پر ایسا نہیں کرسکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ چار انتخابی حلقوں میں یہ کام کیا جائے، چالیس میں، یا پھر قومی اسمبلی کی دو سوبہتر انتخابی حلقوں میں۔

تبصرے (0) بند ہیں