ایک جانب تو پاکستان اپنے جنگلات کی بےدریغ کٹائی کو روکنے کے لیے عالمی فنڈز حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے شمال مغربی حصے کے مقامی اپنے جنگلات کی حفاظت کی پاداش میں غیرقانونی طور پر جنگلات کی کٹائی کرنے والوں کی جانب سے سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔

پچھلے دو سال سے فضل الرحمٰن اور دیگر گاؤں والے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں جنگلات کی کٹائی کرنے والی طاقتور مافیا کے خلاف عدالتی جنگ لڑرہے ہیں۔ وہ اپنے جنگلات کو تباہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔

گاؤں کےبہت سے لوگوں پر، جو پاکستان کےاس آخری بچے کچھے دیودار کے جنگل کے کنارے رہتے ہیں، انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے اور ستم بالائے ستم الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنا وہ جنگل بچانے کی کوشش کی تھی جو بےرحم ٹمبر مافیا نے ان سے چھین لیا تھا، جو کہ مبینہ طور پر محکمہء جنگلات کی ملی بھگت سے کام کررہی ہے۔

وہ مقامی لوگ جنہوں نے لکڑی لے جانے والے ٹرکوں کا راستہ روکا اور لکڑی کی چوری روکنے کی کوشش کی، انہیں"رکاوٹ" بننے کے الزام میں متعدد بار عدالت میں طلب کیا گیا۔ گاؤں والے اس سارے طرزعمل کو کرپشن اور لوٹ مار کا نام دیتے اور واضح الفاظ میں الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس گھناﺅنے کھیل کاحصہ ہیں۔

خیبرپختونخواہ کے خوبصورت مناظر کے حامل ایک اونچے پہاڑی گاؤں کے رحمٰن کا کہنا ہے کہ "ہم میں سےسیکڑوں لوگوں کو مہینے میں چار بار سوات کی عدالت میں طلب کیا جاتا، جہاں ہم پر انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کےتحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ وہاں پہنچنے میں ہمیں بارہ گھنٹے لگتے ہیں، اور وہ چار گھنٹوں کی پیدل مسافت اس کے علاوہ ہے جو ہمیں اپنے گاؤں سے پکی سڑک تک پہنچنےمیں لگتی ہے۔"

سالوں سےجاری جنگلات کی کٹائی نےشمال مغربی پاکستان میں جنگلات کے قطعوں کو برباد کردیا ہے۔ ملک میں جنگلات کی کٹائی کی شرح ایشیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جو ملک کو کسی بھی وقت تباہ کن سیلاب کا شکار بناسکتی ہے۔

"ہمیں جنگلات کی حفاظت اور ان کی کٹائی روکنے کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔" رحمٰن نے تھرڈ پول کوبتایا۔ "جیسے ہی ایک کیس اختتام کو پہنچتا ہے،دوسرا دائر کردیا جاتا ہے۔"

جنگلات کو بچانے کا عزم انہیں بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ رحمٰن نے مزید بتایا؛ "ہر چکر پر سواری، کھانے اور وہاں رات گزارنے کے اخراجات پر ہمارے تقریباً دولاکھ (US$1,117) خرچ ہوتے ہیں۔"

مقامی کوششوں کو بین الاقوامی سمت مل گئی! سابق انسپکٹرجنرل جنگلات سید محمود ناصرکا کہنا ہے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے غیرقانونی اقدام کی روک تھام اور تیزی سے کم ہوتے حیاتیاتی تنوع کی جانب سیاست دانوں کی توجہ مبذول کرانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ انہیں یہ دکھایا جائے کہ تخفیف (بدلتے موسموں کی روک تھام اور مضر صحت گیسوں کے اخراج میں کمی) کی اس حکمت عملی کے ساتھ "ڈالرز" جڑے ہوئے ہیں۔ سید محمود ناصر جانتے ہیں کہ نقصان دہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور جنگلات سے وابستہ مقامی افراد کی فلاح و بہبود کے بغیر کم نہیں کیا جاسکتا۔

جہاں ایان گاﺅں کے افراد اپنے جنگلات کے تحفظ کی جنگ مقامی سطح پر لڑ رہے ہیں، وہیں ماہرین ماحولیات اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھا رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کی معلومات اور سائنسی نقطہ نظر ایک ہی ہے کہ جنگلات کاربن کو جذب کرتے ہیں اور زیادہ جنگلات نسل انسانی کی فلاح کے لیے ضروری ہیں۔

ماہرین ماحولیات جنگلات کی کٹائی اور مضر صحت گیسوں کےاخراج میں کمی کی بین الاقوامی حکمت عملی "ریڈ اور ریڈ+" (REDD and REDD+) کی سفارش کر رہے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی اقدام یا حکمت عملی ہے جو مختلف ممالک کو جنگلات کی کٹائی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔

"ریڈ" حکمت عملی کے تحت قوانین کو مضبوط بناکر، اور جنگلات سے وابستہ مقامی افراد، خاص طور پر خواتین، کی شرکت کو مزید بامعنی بناکر جنگلات کی حفاظت اور انتظامات کے حوالے سے اقدامات میں مدد دی جائے گی،" سید محمود ناصر نے وضاحت کی۔

آئی جی جنگلات سید محمود ناصر جو گذشتہ تین دہائیوں سے اس شعبے میں مصروف عمل اور طاقتور سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں سے باخبر ہیں، وہ پچھلے تین سال سے REDD پروجیکٹ کی تکمیل کی تجاویز تیار کر رہے ہیں تاکہ عالمی فنڈ حاصل کرکے پاکستان میں بچے کچھے جنگلات کے سرمائے کو بچایا جاسکے۔ یہ وہی مقصد ہےجس کے لیے رحمٰن اور ان کے ساتھی لڑرہے ہیں۔

اب یہ ان ممالک کے لیے، جو اپنے جنگلات کو بچانے کے لیے بین الاقوامی فنڈز چاہتے ہیں، بہت ضروری ہوگیا ہے کہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ اپنے تحفظ کے منصوبوں میں جنگلات پرانحصارکرنےوالی مقامی آبادیوں کو بھی شامل کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ ان کا ذریعہ روزگار بھی محفوظ رہ سکے ۔

یاد رہے کہ پاکستان ان بارہ ممالک میں شامل ہے جو ورلڈ بینک کی زیر قیادت REDD پروجیکٹس کے تحت چار ملین ڈالرز کا فنڈ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ قرعہء فال صرف تین ممالک کے نام نکلےگا۔ ناموں کا اعلان دسمبر کے دوسرے ہفتے میں کیا جائے گا اور سید محمود ناصر کو یقین ہے کہ پاکستان کو موقع ضرور ملے گا۔

مقامی آبادی کی شرکت ناگزیر ہے! "صرف فنڈز ہی کامیابی کی ضمانت نہیں" انسداد غربت فنڈ پاکستان (Pakistan Poverty Alleviation Fund - PPAF) کے ظفر پرویز صابری نے تھرڈ پول کو بتایا، "زیادہ اہم یہ ہے کہ مقامی آبادیاں خود کتنی بااختیار ہیں۔ PPAF پاکستان کے طول و عرض میں 120ضلعوں کی نوے ہزار سے زائد بستیوں میں 112 معاون اداروں کے ساتھ کام کررہی ہے۔

صابری نے کاربن فنانسنگ کےحوالے سے مزید بتایا؛

"پاکستان کو اس شعبے میں مشکلات یا چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس میں ہمارا تجربہ ہے کہ اس حوالے سے فنڈز حاصل کرنا ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔"

حال ہی میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ہونے والی کلائمٹ چینج کانفرنس میں جنگلات کے موضوع پر بہت تفصیل سے گفتگو ہوئی اور اس کے نتائج بھی برآمد ہوئے۔ ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جنگلات کی حفاظت کے لیے مختلف ممالک کو پیسے دینے سے قبل ایک نتیجہ خیز سسٹم بہت ضروری ہے۔

صابری کے خیال میں حکومت کی جانب سے فیصلہ سازی میں تاخیر بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ "ریڈ" سے وابستہ افراد کو بھی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام کرنے والے ایک نیٹ ورک Climate and) Development Knowledge Network -- CDKN) کے ایشیا کے ڈائریکٹر علی توقیر شیخ کو اس حوالے سے اور بھی کئی تحفظات لاحق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "میں حیران ہوں کہ پہلے سے ایک نظام موجود ہے، اور یہ پالیسی اور تجاویز بھی پارلیمنٹ میں جائیں گی جس کے بعد متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹیز کی جانب سے اس کا جائزہ لیا جائے گا اور توثیق کی جائے گی، تو کیا کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے، اور کیا یہ مقامی آبادیوں کی مشاورت سے بنایا گیا ہے یا اس کے بغیر یہ کام ہورہا ہے؟"

تیزی سے گھٹتے ہوئے جنگلات!

اس وقت پاکستان تیس ملین میٹرک ٹن کاربن کا اخراج کررہا ہے (یہ شرح 1980 کی 9 ملین کے مقابلے میں تقریبا چار گنا زیادہ ہے)۔ بین الاقوامی اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف0.4% فیصد بنتا ہے، اس کے باوجود پاکستان میں جنگلات کے تحفظ کا بین الاقوامی سطح پر اثر ضرور پڑے گا۔ اگرچہ پاکستان ان پچپن ممالک میں سے ایک ہے جن میں سب سے کم جنگلات ہیں (یعنی صرف 10 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے) لیکن "ریڈ+" مکینزم کی سختی سےپابندی کرنے والے اہم ممالک میں سے ایک ہے۔

"یہ اہم ہے کہ پاکستان REDD+ پروجیکٹ میں جنگلات کا کم رقبہ رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔" آئی جی سید محمود ناصر نے کہا، "پاکستان کے جنگلات اس کے کل رقبے کے 5فیصد سے بھی کم پر ہیں۔" انہوں نے مزید اضافہ کیا؛ "بین الاقوامی طور پر یہ اعداد و شمار متنازعہ ہیں، متعدد رپورٹس دعویٰ کرتی ہیں کہ ہمارا جنگلاتی رقبہ صرف 2.1 فیصد تک ہی محدود ہے۔"

یہاں پر ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ چاروں صوبوں سے لوگوں کو ایک مقصد پر اکٹھا کیا جائے۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی منتقلی کے بعد جنگلات کا محکمہ صوبے کے دائرہء کار میں آگیا ہے لیکن REDD+ حکمت عملی کو کامیاب بنانے کے لیے سب کی شمولیت ضروری ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے سید محمود ناصر نے بتایا؛

"کیونکہ اگر ہم اس کا عمل درآمد صرف ایک صوبے میں کرتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان موجود رہے گا کہ لکڑی کاٹنے والے دوسرے صوبے میں چلے جائیں اور یوں نتیجہ صفر ہوجائے گا۔" طویل عرصے تک سرکاری عہدیداروں سے لمبی لمبی میٹنگز کے بعد تمام سٹیک ہولڈر بالآخر اب متفق نظر آئے ہیں۔

کلائمٹ چینج سیکریٹری راجہ حسن عباس کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت یقینا صوبوں سے تعاون کرے گی اور ان کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ان معاہدوں پر عمل درآمد ممکن بنایا جائے جن کی توثیق ہوچکی ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (Food and Agricultural Organisation -- FAO) بھی اس سلسلےمیں اپنے تعاون کا اعلان کرچکی ہے۔

رپورٹس کے مطابق WWF بھی وعدہ کرچکی ہے کہ اس کے ماہرین کے زیراہتمام جنگلات اور کاربن کی پیمائش اور مانیٹرنگ کے لیے نیپال میں ٹریننگ منعقد کی جائیں گی۔ PPAF بھی کم ازکم تین جگہوں پر فوری اثرات اور نتائج کے حامل پائلٹ پروجیکٹس شروع کرے گی، جس میں صوبہ بلوچستان کے شہر زیارت کے صنوبر کے جنگلات بھی شامل ہوں گے جنہیں عالمی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے۔

ترجمہ: شبینہ فراز

بشکریہ: تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ

اپ ڈیٹ: اس مضمون کی اشاعت کے بعد تازہ ترین پیشرفت میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جو 38 لاکھ امریکی ڈالر حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ تاہم اصل کام کا آغاز اب ہوگا۔ اب وزیراعظم اور کابینہ کی اس حوالے سے حمایت اور عزم کی ضرورت ہے تاکہ جنگلوں کو بچایا جاسکے ورنہ یہ محنت رائیگاں جائے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Aslam Khan Dec 18, 2013 09:24am
میں اپنے چند ٹریکر دوستوں کے 14 دسمبر 2013 کو ساتھ بالا کوٹ کے مقام شوگران کی ایک برفانی چوٹی پر ٹریکینگ کرنے گیا۔ رات کے ۱۰ بجے ہم بالاکوٹ پہنچے تو چند پہاڑوں پرآگ لگی دیکھ کر مقامی لوگوں سے پوچھا، تو پتا چالا کو اکثر سردیوں میں جب سیاحوں کی آمد کم ہو جاتی ہے تو ٹمبر مافیا اور پحکمہ جنگلات کے لوگوں سے مل کر اس طرح جنگلوں کو برباد کرتے ہیں۔ اگلی رات یہ آگ مزید چھ سات جگہوں پر لگی چکی تھی۔ جب ہم واپس آ رہے تھے تو جنگلات کی چیک پوسٹ پر ہمیں روکا گیا، کہا کہ کار کی ڈگی چیک کرنی ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کے بھَی جنگلا ت والے کار کی ڈگی میں کیا دیکھتے ہیں، تو جنگلات کا اہلکار بولو کی، دنداسہ چوری ہوتا ہے، اس لیَے کار چیک کرنی ہے۔ میں اہلکار کو پہاڑ کی چوٹیوں پر لگی آگ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان کو کیوں نہیں روکتے، تو کھسیانا ہو کر بولا، کہ ہم کو اس ک حکم نہیں۔ قاریَیں اور پختونخواہ حکومت سے درخواست ہے کی اس ملک کو اپنا پلک سمجھ کو اس ظلم سے بچایَیں ورنہ سیلاب اور لینڈ سلاییڈنگ اس خوبصورت جگہہ کو برباد کردیں گے۔ [پہاڑوں پر آگ کی تصویر][1] [1]: https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10151787098886906&set=a.10151787097866906.1073741841.625491905&type=1&theater