فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے آن لائن جعلی ادویات کی فروخت میں ملوث ڈاکٹر سمیت 2 ملزمان کو گرفتار کرلیا۔

’ڈان نیوز ’ کی رپورٹ کے مطابق ترجمان ایف آئی اے نے کہا کہ گرفتار ملزمان میں ڈاکٹر احمد فرحان اور عاطف فیاض شامل ہیں، ملزم احمد فرحان پمز ہسپتال میں بطور ایسوسیٹ پروفیسر تعینات تھا۔

ترجمان ایف آئی اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملزمان آن لائن فارمیسی کے ذریعے بین شدہ اور غیر رجسٹرڈ ادویات فروخت کر رہے تھے۔

ترجمان ایف آئی اے نے کہا کہ ملزمان نے اس مقصد کے لیے ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی تھی۔

واضح رہے کہ مارچ میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز نے دوا ساز کمپنیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایک ماہ کے اندر تمام مقامی اور درآمدی ادویات کی پیکیجنگ پر بارکوڈ پرنٹ کریں۔

اسلام آباد میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) پالیسی بورڈ نے ہدایت کی تھی کہ کمپنیاں 20 اپریل تک تمام فارماسیوٹیکل اور بائیولوجیکل ادویات کے لیے جاری کردہ ہدایات پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہیں۔

وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ اقدام معیاری ادویات کی فراہمی اور جعلی ادویات کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ بارکوڈز گلوبل شناختی کوڈ سسٹم کے طور پر کام کرےگا، جس سے شہری اپنے اسمارٹ فونز سے بارکوڈ اسکین کرکے ادویات اور ان کی قیمتوں کی تصدیق کر سکیں گے۔

یہ نظام تقریباً ایک دہائی سے کام کر رہا ہے، نیشنل ہیلتھ سسٹم کی وزارت اور ڈریپ نے 2015 میں بارکوڈ متعارف کرانے کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ جعلی ادویات کی فروخت کو ختم کر دے گا۔

دو سال بعد مارچ 2017 میں وزارت نے اعلان کیا تھا کہ اس منصوبے کو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔

وزارت صحت کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ یہ بار کوڈ ڈپارٹمنٹل اسٹورز جیسا ہی ہوگا جہاں مصنوعات کی قیمتوں کو سنگل ڈائمینشنل یا ون آئی ڈی بارکوڈز کے ذریعے چیک کیا جاتا ہے۔

دوا ساز کمپنیاں ٹو ڈی بارکوڈز، جنہیں عام طور پر کیو آڑ کوڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، دوائیوں کی پیکیجنگ پر استعمال کریں گے۔

صارفین پروڈکٹ کے نام، اس کے بنانے والے نام، بیچ نمبر، وہ تاریخ جس کے بعد چیز استعمال کے قابل نہیں رہتی اور قیمت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ٹوڈی بارکوڈز کو اسکین کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جن شہریوں کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہیں وہ میڈیکل اسٹور کے مالک یا کسی دوسرے شخص سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ دوا کی تصدیق میں ان کی مدد کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں