جماعتِ اسلامی نے منور حسن کا عہدہ کیوں ختم کیا؟

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2014
جماعتِ اسلامی کے سابق امیر، منورحسن (درمیان میں)۔ فائل تصویر
جماعتِ اسلامی کے سابق امیر، منورحسن (درمیان میں)۔ فائل تصویر

*مولانا سراج الحق کی جماعتِ اسلامی کے پانچویں امیر منتخب ہونے کے بعد تجزیہ کار کئی انداز سے اس کی وضاحت کررہے ہیں۔ عام طور پر اسے قاضی حسین احمد کی وہ مقبول سیاست کے پہلو کے طور پر لیا جارہا ہے جس کی شدید خواہش کے تحت وہ اسے ایک مرکزی سیاسی جماعت بنانا چاہتے تھے۔ ' سراج الحق قاضی حسین احمد کے لیڈرشپ کے انداز میں کام کریں گے،' لاہور میں جماعت کے ایک سینیئر کارکن نےڈان اخبار کو بتایا۔*

پارٹی ڈسپلن کا خیال رکھتے ہوئے انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ( سراج الحق) دیگر جماعتوں کے اتحاد کے حامی ثابت ہوں گے اور متنازعہ معاملات سے دور رہنے کی کوشش کریں گے اور اس کی وجہ ایم ایم اے اتحادی حکومت ( سال 2002 سے 2007 ) اور حال میں صوبہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کا تجربہ ہے،' انہوں نے کہا۔

' جماعتِ اسلامی کے امیر کے انتخاب کا معاملہ ہمیشہ عوام کیلئے دلچسپی کی وجہ بنتا ہے کیونکہ اگرچہ جماعتِ اسلامی ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے میں اتنی کامیاب نہ ہوسکی لیکن اپنے سیاسی نظریئے اور اسٹریٹ پاور کی وجہ سے لوگ اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ جماعت کے اندر انتخابات اگرچہ ہمیشہ ہی پیشگوئی کے قابل ہوتے ہیں یہاں تک کے سراج الحق کا سرپرائز سامنے آگیا۔

پارٹی کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سراج الحق اتوار کو جماعت میں ووٹ دینے کے اہل اراکین کی تائید سے امیر بنے لیکن ایک اور امیر منور حسن کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ یہاں دو نکات اہم ہیں۔ اول یہ کہ جماعت نے پہلے سے موجود امیر کو نہ ہٹانے کی روایت کو کیوں توڑا؟ اگرچہ ہم یہاں تصور کرلیتے ہیں کہ منورحسن دوبارہ منتخب ہونے کے خواہشمند نہ تھے؟ اگر یہ مقابلہ جماعت کے قدرے دو کم عمر امیر لیاقت بلوچ اور سراج الحق کے درمیان تھا تو ایک کے مقابلے میں دوسرے کا انتخاب کیوں اور کیسے کیا گیا؟

اس کا جواب منور حسن کی زیرِ قیادت جماعت کی سیاست میں مل جائے گا۔ وہ اپنے نظریات پر ڈٹے رہنے والے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ان کے سیاسی انداز نے اس جماعت کی ضرورت کو جنم دیا جو اس سے پہلے اس کے پیش رو نے کی ہے ۔ یہاں لیاقت بلوچ اور سراج الحق ان کے ممکنہ مسند نشین کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ایک حد تک منورحسن کی ( سیاسی) اتحادیوں کی ذاتی ترجیح پر جماعت نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی سے اتحاد کیا اور اس وجہ سے بلوچ کے مقابلے میں سراج الحق کا پلڑا بھاری رہا ۔

لاہور کے سیاسی اور عسکری تجزیہ نگار، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی جو توقع کررہے تھے کہ حسن کی جگہ بلوچ آئیں گے، انہوں نے کہا ہے کہ سراج الحق کا انتخاب جماعت کے سابق پیش رو کی ' تصادم' والی سیاست کی تردید کرتا ہے۔ ' سید منورحسن کے متنازعہ بنای سے پارٹی کے باہر جماعت کا امیج متاثر ہوا ہے۔ سراج الحق قاضی حسین کی راہ پر چلیں گے تاکہ وہ جماعتِ اسلامی کا امیج بہتر بناسکیں۔

واضح رہے کہ منورحسن نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) کے رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو شہادت قرار دیا تھا۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ بھی بیان دیا کہ جب میدانِ جنگ میں مرنے والی کسی امریکی سپاہی کو شہید نہیں کہا جاسکتا تو ( امریکی جنگ) لڑنے والے والی پاکستانی فوج کو کس طرح شہید کہا جاسکتا ہے۔

اس بیان پر فوج نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اور اس پر دہشتگردی کیخلاف لڑنے اور جان دینے والے پاکستانی افواج، اور ان کے خاندان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر غیرمشروط معافی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اگرچہ فوج کے مذمتی بیان کے بعد جماعت نے اپنے لیڈر کے بیان کا دفاع کیا لیکن اس بیان سے خود کو لاتعلق رکھتے ہوئے اسے منور حسن کے ' ذاتی خیالات' قرار دیا۔

اپنا نام نہ بتانے والے جماعت کے اسی لیڈر نے ڈاکٹر حسن عسکری رضوی سے اتفاق کیا۔ ' منور حسن اپنے دل کی ذیادہ سنتے ہیں۔ انہوں نے طالبان کی حمایت میں جو بیان دیا ہے وہ جماعت کی پالیسی اور کلچرکو ظاہر نہیں کرتا ۔ ہم طالبان کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ ہماری جماعت نے عسکریت پسندی کی حمایت کبھی نہیں کی۔ تو جب بھی موقع ملا ہمارے اراکین نے ( ان کیخلاف) فیصلہ دیا۔ ' لاہور میں جماعتِ اسلامی کے ایک اور سینیئر رہنما، فرید پراچہ متفق ہیں کہ جماعتِ اسلامی کے نئے امیر ' تبدیلی کی وہی لہر' لائیں گے جو اس سے قبل قاضی حسین احمد لاچکے تھے اور سراج الحق ان کے پیش رو ہیں۔ انہوں نے ان ' افواہوں' کی تردید کی کہ منور حسن کے متنازعہ بیان پر اراکین نے انہیں سزا دی ہے۔

' سید منور حسن کی عمر 73 برس ہے اور ان کو صحت کے کچھ مسائل کا سامنا ہے اور وہ اگلی مدت کیلئے پارٹی کے امیر بننا نہیں چاہتے۔ مرکزی شوریٰ نے ان کی درخواست رد کی لیکن جماعت کے اراکین نے نیا امیر منتخب کرتے ہوئے اس درخواست کو قبول کیا۔' انہوں نے امید ظاہر کی کہ سراج الحق کا انتخاب جماعت اور اس کے کارکنوں کی تنظیمِ نو میں مدد دے گا۔

منتخب ہونے والے جماعت کا عوامی تصور ایک سخت گیر اور عسکریت پسندوں کی حمایت کو ظاہر کرتا ہے ۔ لیکن خود جماعت اور تجزیہ کار ان کے بارے میں اس تصور کی نفی کرتے ہیں۔ ' سخت گیر عوامی تصور کے برخلاف، سراج الحق ایک معتدل مزاج ( سیاستدان( ہیں عین جماعت کی پرانی روایتوں کی طرح ۔

ڈاکٹر رضوی جیسے ماہر خبردار کرتے ہیں کہ اس ضمن میں سراج الحق کو الگ نہ سمجھا جائے۔ ' جماعتِ اسلامی طالبان کی حامی جماعت ہےاور اس میں سراج الحق کو الگ سے کیوں دیکھا جارہا ہے۔ اسی علاقےسے تعلق رکھنےکی بنیاد پر وہ ذیادہ ہمدرد ( عسکریت پسندوں کے) ہوسکتے ہیں۔ '

انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ان کی فتح میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے کہ وہ افغانستان سے نیٹو کے جانے کے بعد صوبہ خیبرپختونخواہ میں اپنی حکمتِ عملی وضع کرنی چاہتی ہے۔

' میں نہیں سمجھتا کہ ریاست اراکین ( جماعتِ اسلامی کے ووٹروں ) کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی میں انتخابات کا پانسہ پلٹے گی۔ سراج الحق کی واپس سے جماعت کا وہ دور شروع ہوا ہے جس میں دوسروں کیلئے قبولیت کی گنجائش تھی۔ الیکشن میں لیاقت بلوچ کی شکست کو پارٹی میں ان عناصر کی خواہش کے طور پر دیکھنا چاہئے جو ' نظریاتی طور پر قریب' دیگر جماعتوں سے اتحاد چاہتی ہیں مثلاً پی ٹی آئی۔

' لیاقت بلوچ پنجاب کی قیادت کرتے ہیں جو مسلم لیگ نون سے اتحاد کی خواہاں ہے۔ اور منور حسن نے انتخابی ایڈجسٹمنٹ کے دوران اس تصور کو رد کردیا تھا اور گزشتہ برس پی ایم ایل این کی جگہ پی ٹی آئی کا انتخاب کیا تھا۔ سراج کے انتخاب سے جماعت سیاسی منظر نامے پر آگے بڑھے گی،' ایک سینیئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا۔

اگرچہ منور حسن پارٹی کے امیر نہیں رہے لیکن ان کی ایک روایت کم از کم کچھ وقت کیلئے تو برقرار رہے گی۔

تبصرے (2) بند ہیں

pervaiz majeed Apr 01, 2014 06:51pm
new trend in political history of jamat e islami firstly a serving government minister ,how is in power for more than half a decade and IMPORTANTLY first Pakistan born leader of jamat e islami.born after independence.
Israr Muhammad Apr 02, 2014 07:05pm
میں‏ ‏تجزیہ‏ ‏نگار‏ کے‏ ‏‏اس‏ ‏رائے‏ ‏سے‏‏ ‏بلکل‏ ‏متفق‏ ‏نہیں‏ ‏ھوں‏ ‏کہ‏ ‏منورحسن‏ ‏کی‏ ‏ہار‏ ‏میں‏ ‏کسی‏ ‏اور‏ ‏کا‏ ‏ہ‏اتھ‏ ‏نہیں‏ ‏جماعت‏ ‏اسلامی‏ ‏ہمیشہ‏ ‏سے‏ ‏اسٹیبلشمنٹ‏ ‏کی‏ ‏حامی‏ ‏جماعت‏ ‏رھی‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏اسکا‏ ‏واضح‏ ‏اور‏ ‏ناقابل‏ ‏تردید‏ ‏مثال‏ ‏مشرقی‏ ‏پاکستان‏ ‏اور‏ ‏افعان‏ ‏‏ ‏جنگ‏ ‏میں‏ ‏جماعت‏ ‏کا‏ ‏کردار‏ ‏ھے‏ ‏سراج‏ ‏الحق‏ ‏ایک‏ ‏سچا‏ ‏ادمی‏ ‏ھے‏ ‏وہ‏ ‏حکومت‏ ‏میں‏ ‏رہے‏ ‏لیکن‏ ‏ان‏ ‏پر‏ ‏اج‏ ‏تک‏ ‏کوئی‏ ‏الزام‏ ‏نہیں‏ ‏لگا‏ ‏ امریکہ‏ ‏کی‏ ‏افعانستان‏ ‏سے‏ ‏واپسی‏ ‏کے‏ ‏اسٹیبلشمنٹ‏ ‏کو‏ ‏ایک‏ ‏بار‏ ‏پھر‏ ‏ان‏ ‏لوگوں‏ ‏کی‏ ‏ضرورت‏ ‏ھوگی‏ ‏ ‏