اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے معلومات فراہم کرے کہ لوگ کس قدر کم سے کم تنخواہ پر زندہ رہ سکتے ہیں، اس کے محض دو ہی ہفتوں کے بعد ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ایک پارلیمانی کمیٹی اراکین پارلیمنٹ کے سفری الاؤنس میں اضافے پر بحث کا ارادہ رکھتی ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور منگل کے روز اراکین پارلیمنٹ کے سفری الاؤنس میں اضافے پر غور کرے گی، امکان ہے کہ ٹکٹ کے بجائے سفری کارڈ جاری کیے جائیں گے۔

کمیٹی کے منعقد ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کمیٹی اراکین پارلیمنٹ کے غیرملکی دوروں کے دوران ان کے خاندان اور اسٹاف کے لیے بھی فضائی ٹکٹ کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

ملک میں آٹے کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی قیمت پر جماعت اسلامی کے رہنما کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک پٹیشن پر سپریم کورٹ کی دو رُکنی بینچ نے 14 اپریل کو حکومت سے کہا تھا کہ وہ اعدادوشمار کے ساتھ یہ ثابت کرے کہ آخر کس طرح دو بالغ اور دو بچوں پر مشتمل ایک خاندان عزت کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے، جو اس کو آئین کے آرٹیکل چودہ کے تحت ملنی چاہیٔے۔

یاد رہے کہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ سات ہزار سے نو ہزار روپے ہے۔

جب اس پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین مسلم لیگ نون کے میاں عبدالمنان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کا سفری الاؤنس میں اضافے کا مطالبہ اس لیے درست ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور کمیٹیوں کے اجلاس کے دوران اپنے حلقہ انتخاب سے اسلام آباد آنے جانے کے سفری اخراجات ارکان پارلیمنٹ کو اپنی جیب سے ادا کرنے پڑتے ہیں۔

میاں عبدالمنان نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کو دس روپے فی کلومیٹر سفری الاؤنس ملتا ہے، جو ناکافی ہے۔ انہیں اپنی جب سے سولہ سے سترہ روپے مزید خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 80 فیصد اراکین سڑک کے راستے سے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔

سفری کارڈز کے حوالے سے عبدالمنان نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ موجودہ سفری الاؤنس تین لاکھ روپے سالانہ میں کوئی اضافہ نہیں کراوانا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق اراکین چاہتے ہیں کہ انہیں کریڈٹ کارڈ کی طرز کا سفری کارڈ ٹکٹس یا واؤچرز کے بجائے دیا جائے، جس کے حوالے سے انہیں اجازت ہونی چاہیٔے کہ وہ ملک کے اندر اور بیرون ملک سفر کے دوران استعمال کرسکیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے تردید کی کہ کمیٹی کے اراکین اپنی تنخواہ کے بارے میں بھی بات کریں گے، اس لیے کہ یہ معاملہ کمیٹی کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین نے بتایا کہ اس کمیٹی کا کام سفارشات تیار کرنا ہے، اور قومی اسمبلی ان پر بذریعہ ووٹنگ فیصلہ کرتی ہے۔

اراکین قومی اسمبلی ک تنخواہ، الاؤنسز اور مراعات سے متعلق معاملات کی وضاحت سیلری اور الاؤنسز ایکٹ 1974ء میں کی گئی ہے، جس مین پچھلے چالیس برسوں کے دوران کئی مرتبہ ترمیم کی جاچکی ہے۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ایک رکن قومی اسمبلی کو ماہانہ تنخواہ ستائیس ہزار تین سو ستتّر روپے، اس میں 2010ء میں ماہانہ گیارہ ہزار نو سو تین روپے کے ایڈہاک الاؤنس کا اضافہ کیا گیا، آفس کی دیکھ بھال کا الاؤنس آٹھ ہزار روپے، ٹیلی فون الاؤنس دس ہزار روپے، مصارف الاؤنس پانچ ہزار روپے، 2011ء کا ایڈہاک ریلیف الاؤنس تین ہزار پانچ سو اکہتر روپے، اور 2012ء کا ایڈہاک ریلیف الاؤنس پانچ ہزار چار سو پچھہتر روپے۔

سب ملا کر کل تنخواہ اکہتر ہزار تین سو چھبیس روپے بنتی ہے، دیگر مالی فوائد اس کے علاوہ ہیں۔

اس کے علاوہ اراکین قومی اسمبلی کو اسمبلی کے اجلاس میں اور کمیٹیوں کی میٹنگز میں شرکت کے لیے تین ہزار سات سو پچاس روپے روزانہ کے حساب سے ٹی اے ڈی اے ادا کیے جاتے ہیں۔

انہیں بذریعہ ہوائی جہاز سفر کے دوران بزنس کلاس میں اور ٹرین کے ذریعے سفر میں ایئر کنڈیشنڈ کلاس میں سفر کی اجازت ہوتی ہے، اور بذریعہ سڑک سفر پر انہیں روڈ الاؤنس کی مد میں دس روپے فی کلومیٹر ادا کیے جاتے ہیں۔

اراکین اسمبلی کو تین لاکھ روپے کی مالیت کے سفری واؤچرز یا نوّے ہزار روپے کیش الاؤنس کی مد میں ہر سال دیے جاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ انہیں بیس بزنس کلاس کے ریٹرن ٹکٹس ایک سال میں ملتے ہیں۔

ان کے گھر پر ایک ٹیلی فون کی تنصیب مفت کی جاتی ہے اور انہیں کلاس ون گورمنٹ آفیسر کے مساوی مفت طبی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں