'امریکی فوج پاکستان میں کارروائی کو تیار تھی'

اپ ڈیٹ 05 جون 2014
بووی برگڈال طالبان کی قید کے دوران۔ یہ تصویر طالبان کی جاری کردہ ایک وڈیو سے حاصل کی گئی۔ —. فوٹو اے ایف پی
بووی برگڈال طالبان کی قید کے دوران۔ یہ تصویر طالبان کی جاری کردہ ایک وڈیو سے حاصل کی گئی۔ —. فوٹو اے ایف پی
بووی برگڈال طالبان کی قید میں، طالبان کی جاری کردہ وڈیو سے حاصل کی گئی تصویر۔ —. فوٹو اے پی
بووی برگڈال طالبان کی قید میں، طالبان کی جاری کردہ وڈیو سے حاصل کی گئی تصویر۔ —. فوٹو اے پی
سارجنٹ برگڈال امریکی فوج کی وردی میں۔ —. فوٹو رائٹرز
سارجنٹ برگڈال امریکی فوج کی وردی میں۔ —. فوٹو رائٹرز

گوانتاناموبے کی جیل میں قید پانچ طالبان رہنماؤں کی رہائی کے بدلے میں طالبان کی قید سے آزاد ہونے والے امریکی فوج کے سارجنٹ بووی برگڈال کے حوالے سے ایک اہم انکشاف یہ منظرعام پر آیا ہے کہ امریکی افواج سارجنٹ بووی کی رہائی کے لیے پاکستان میں چھاپہ مار کارروائی کے لیے تیار تھی۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اوباما انتظامیہ کے اندر اس حوالے سے بحث جاری تھی کہ بووی برگڈال کی رہائی کے لیے پاکستان کے اندر اسی طرز کی کارروائی کی جائے، جس طرز کی کارروائی اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر مئی 2011ء میں کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں القاعدہ کے سربراہ ہلاک ہوگئے تھے۔

امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ اس طرز کی کارروائی دوبارہ کی گئی تو اس سے پاکستانی حکومت مشتعل ہوجائے گی۔ نتیجے میں امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کے ساتھ غیریقینی اتحادمزید کمزور پڑجائے گا، اور پاکستان کی ملی جلی حمایت میں کمی آجائے گی۔

واشنگٹن پوسٹ نے ایک سابق انتظامی اہلکار جو اس بحث میں شریک تھے، کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران امریکی حکام بووی برگڈال کو بچانے کے لیے ایک کارروائی پر غور کرنا شروع کردیا تھا۔

تاہم ٹھوس بنیادوں پر خفیہ معلومات کی عدم دستیابی کی بنیاد پر امریکی افواج کو ایسی کسی کارروائی کا حکم نہیں دیا جاسکا۔

اسی حوالے بی بی سی ہندی کے برجیش اپادھیائے نے اپنی رپورٹ میں پاک افغان امور پر سابق امریکی نائب وزیر دفاع ڈیوڈ سیڈنی کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ 2009ء کے دوران بووی برگڈال کو یرغمال بنائے جانے کے بعد امریکا نے سب سے پہلے اس بات کی کوشش کی ہوئی تھی کہ انہیں پاکستان لے جانے سے ہر ممکن طریقے سے روکا جائے۔

اس لیے کہ امریکی حکام کا خیال تھا کہ اگر انہیں ایک مرتبہ پاکستان پہنچا دیا گیا تو پھر ان کی رہائی کا امکان کم ہوجائے گا۔ اس کام کے لیے انہوں نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی مدد طلب کی تھی۔

ڈیوڈ سڈنی نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکی حکام یہ جانتے تھے کہ بووی برگڈال حقانی نیٹ ورک کے قبضے میں ہیں، اور ان کا خیال تھا کہ آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک درمیان روابط موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک میری معلومات ہیں، امریکا کو اس معاملے میں پاکستان سے کوئی خاص مدد نہیں مل سکی تھی ۔

واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ اسی بحث کے دوران امریکی حکام نے قیدیوں کے تبادلے کی تجویز پر غور کرنا شروع کردیا۔

طالبان کی طرف سے بووی برگڈال کی رہائی کی ویڈیو جاری کیے جانے کے بعد سے امریکا بھر میں اس معاہدے کے حوالے سے گرما گرم بحث جا ری ہے کہ کیا بووی برگڈال کو رہا کروانے کا یہی ایک راستہ باقی بچا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی فوجی حکام کو کم سے کم دو مرتبہ پاکستان میں بووی برگڈال کے ٹھکانے کے بارے میں اشارے ملے تھے، اور واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ کے حکام کے درمیان اس نکتے پر کافی بحث ہوئی تھی کہ پاکستان کی سرزمین پرچھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے انہیں رہا کروا لیا جائے۔

امریکی اخبار لکھتا ہے کہ امریکی فوج میں اس وقت کے اعلٰی ترین افسر ایڈمرل مائیک میلن اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنٹا اس طرح کی کارروائی کے حق میں تھے۔

ڈیوڈ سڈنی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں کی جانے والی امریکی کارروائی کے نتائج کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا مزید مشکل ہو گیا تھا، اس لیے کہ امریکی حکام کے پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات نہایت کشیدہ ہوچکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج نے یہ حکم جاری کر رکھا تھا کہ اگر پاکستانی حدود کے اندر امریکی ہیلی کاپٹر گھس آ ئیں تو انہیں مار گرایا جائے۔ ایسے میں کسی بھی حکمت عملی کے لیے ہمیں ٹھوس بنیادوں پر خفیہ معلومات کی درکار تھیں، جو ہمیں میسر نہیں آسکیں۔

سارجنٹ بووی برگڈال تقریباً پانچ سال تک حقانی نیٹ ورک کی حراست میں رہے اور اس دوران برگڈال کی رہائی کے لیے امریکی حکومت کی جانب سے پاکستانی حکام پر دباؤ بھی ڈالا گیا لیکن انہیں کوئی مدد نہیں مل سکی۔

دوسری جانب امریکہ کے ایک اعلٰی فوجی افسر کا کہنا ہے کہ اغوا کیے جانے سے پہلے ہی اپنی چوکی خالی کرنے کے اقدام پر بووی برگڈال پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

ایک معاہدے کے تحت برگڈال کی رہائی کے بدلے میں طالبان کے پانچ سینئر رہنماؤں کو رہا کرنے کے فیصلے کا امریکی صدر براک اوباما نے دفاع کیا ہے۔

وارسا میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں اوباما نے کہا تھا کہ ہم اپنے فوجیوں کو جنگی قیدیوں کے طور پر نہیں چھوڑتے ہیں ، ہماری یہ روایت شروع سے چلی آ رہی ہے۔

دراصل سارجنٹ برگڈال کی ہفتہ کو ہونے والی رہائی کے بعد سے ریپبلکن رہنماؤں نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے فیصلے پر شدید تنقید شروع کر دی تھی۔

انہوں نے دہشت گردوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے حوالے سے صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ گوانتاناموبے جیل سے طالبان کے پانچ سینئر قیدیوں کی رہائی سے امریکیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ایوان نمائندگان کی فوج سے متعلق ایک کمیٹی نے طالبان قیدیوں کے بدلے میں بووی برگڈال کی رہائی کے معاملے پر گیارہ جون کو وزیر دفاع چک ہیگل کو گواہی دینے کے لیے طلب کیا ہے۔

سارجنٹ بووی برگڈال اس وقت جرمنی کے ایک فوجی ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں، جہاں ان کی حالت میں بہتری آئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں