بیروزگاروں کا پاکستان

16 جون 2014
فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ رٹو طوطے گریجویٹس پیدا کرنا جاری رکھیں یا پھر اپنی سوچ درست کر کے ٹیکنیکل ایجوکیشن پر توجہ دیں
فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ رٹو طوطے گریجویٹس پیدا کرنا جاری رکھیں یا پھر اپنی سوچ درست کر کے ٹیکنیکل ایجوکیشن پر توجہ دیں

بیروزگاری ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے- پاکستان کو درپیش انوکھے چیلنجز کو آپ کیسے بھی دیکھیں، لگتا یہی ہے کہ روزگار کا فقدان ہی سب مسائل کی جڑ ہے- چاہے وہ دہشت گردی معاملہ ہو، صحت کے مسائل ہوں یا سیاسی اتھل پتھل، ہر بحران کے پیچھے اصل مسئلہ روزگار کا جاری بحران ہی ہے-

یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہو گا کہ مختلف وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کچھ نہیں کیا- تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس حوالے سے انہوں نے جو طریقہ کار اپنایا وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ اسے ایک میجر اوورہال بھی ضرورت ہے-

'بیروزگاری' کے حوالے سے ایک پراسرار اور غیر پیداواری سمجھ بھی اس کے وجود کی ایک وجہ ہے حالانکہ اس مسئلے پر مسلسل بڑی بڑی رقمیں لگائی جا رہی ہیں-

ضرورت اس بات کی ہے کہ نوکریاں پیدا کرنے اور معاشی بہتری کے لئے ہم اپنی اپروچ ٹھیک کریں کیونکہ حالیہ پالیسیاں ہمیں غلط سمت لے جا رہی ہیں-

اس پوسٹ سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں ان تمام اپروچز کو لسٹ کروں جن میں ہم اس وقت پھنسے ہوئے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کروں کہ کیوں یہ ہمارے مقاصد کے لئے کارآمد نہیں- اس کے علاوہ میں ان کا متبادل پیش کرنے کی کوشش بھی کروں گا جو کہ دنیا بھر میں کامیاب ہونے کے باوجود ہماری قوم نے نظرانداز کئے ہوئے ہیں-

سب سے پہلے تو یہ خیال ہی غلط ہے کہ حکومت کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں-

یہ حکومت کا کام ہی نہیں کہ وہ روزگار پیدا کرے- حکومت کا کام تو یہ ہے کہ وہ ایک ایسا ماحول پیدا کرے کہ جس میں نجی ادارے اور بزنسز، پھل پھول سکیں اور اس کے نتیجے میں روزگار کے موقعے پیدا ہوں-

حکومت کی حالیہ کوششوں میں اصل گڑبڑ یہی ہے کہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اس بات کا احساس کئے بغیر کہ پیسہ پھینکنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا بلکہ ایسا کرنے سے صرف یہ غلط تاثر ہی ملتا ہے-

اس حوالے سے گزشتہ سالوں کے دوران مختلف قرضہ اسکیموں کے نام پر خرچ کئے جانے والے فنڈز کی مثال لے لیں- ہر کیس میں حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک بہت بڑی نوکر شاہی کی فوج پیدا ہو جاتی ہے جو کہ حکومت کے سیاسی مفادات کے نام پر پیسہ خرچ کر رہی ہوتی ہے-

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی مثال لے لیں، ایک ایسا پروگرام جس کا انکم سپورٹ والا جزو خاصا کارآمد ہے اور اس کا اثر بھی ہو رہا ہے (محدود علاقوں میں سہی) پر قرضہ اسکیم کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے لہٰذا حکومت اسے جاری رکھنے پر مجبور ہے-

ایسے کیس میں ٹیکس دینے والے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے پیسہ دے رہے ہیں جبکہ اصل میں ہو یہ رہا ہے کہ روزگار کے مناسب مواقع تو پیدا ہو نہیں رہے لیکن سیاستدان اپنے اپنے حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ مظبوط کرنے کے لئے اسے استعمال کر رہے ہیں-

کچھ ایسا ہی معاملہ زیادہ تر دیگر اسکیموں کا بھی ہے جن کا بنیادی مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے- اصل گڑبڑ یہ ہے کہ پیسہ صرف لٹایا جا رہا ہے بجائے اس کے کہ اس پیسے کو موجودہ اور نئے برنسز کے فروغ اور استحکام کے لئے استعمال کیا جائے-

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، پھر بھی ایسا کیوں کرتی ہے؟

اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے یہ حکومت کی بہترین چال ہے اور بس-

دوسرا یہ نظریہ کہ روایتی تعلیم سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار حاصل ہو گا-

یہ بھی درحقیت ایک فرسودہ خیال کے سوا کچھ بھی نہیں جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے- زیادہ تر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم، بہترین نوکریاں حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے-

اس غلط مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ڈگری فراہم کرنے والی ایسی فیکٹریاں قائم ہو گئی ہیں جہاں طالب علم، 'ایم سی کیوز' کے ذریعے جاب مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور جس سے ایک ایسی مارکیٹ نے جنم لے لیا ہے جس میں زیادہ تر افرادی قوت کو آپس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان سب کی صلاحیتیں ایک جیسی ہیں-

'ایک سائز سب کے لئے' والے اس رجحان نے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی ایک فوج ظفر موج پیدا کر دی ہے جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کیا چاہئے اور وہ ایک دوسرے میں فرق کرنے کے قابل بھی نہیں-

ایسی صورتحال میں خاص طور پر جب نئے مواقع بھی پیدا نہ ہو رہے ہوں، آجر چاہتے ہیں کہ انہیں سب سے سستا امیدوار مل جائے کیونکہ ان کے خیال میں تمام کے تمام امیدوار آخر ایک ہی فیکٹری کی پیداوار ہیں-

اس مسئلے کو مزید پیچدہ کرنے کے لئے 'انڈر ایمپلائمنٹ' کا معاملہ بھی ہے یعنی زیادہ کوالیفائیڈ لوگ بنیادی نوکریاں کر رہے ہیں- لہٰذا آئندہ جب بھی ہم اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے شیخیاں بگھاریں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ صرف زیادہ یونیورسٹیاں اور کالج قائم کرنے سے طویل مدت میں زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضمانت نہیں ملتی-

اور آخر میں نیا کاروبار شروع کرنے کا جنون بھی غلط ہے-

گو کہ یہ خیال بنیادی طور پر اچھا اور قابل تعریف ہے تاہم اس خیال میں بنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں مقامی آبادی کی کاروباری صلاحیت اور قابلیت یا ENTREPRENEURIAL SKILLS کو 'اوراسٹیمیٹ' کیا جاتا ہے-

کاروباری صلاحیت اور قابلیت، پروڈکشن کے حوالے سے ایک اہم فیکٹر ہے اور جس کسی نے بھی معاشیات پڑھی ہے اسے علم ہو گا کہ پروڈکشن کے تمام ہی فیکٹر نایاب ہوتے ہیں-

یہ تاثر کہ معیشت ایک دم صحیح ہو جائے گی اگر ریاست سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں نئے کاروبار شروع کروانے کے لئے پیسے لگائے گی پاگل پن کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس کی نشاندہی ایک بارہ سالہ بچہ بھی کر سکتا ہے-

ذرا سوچیں تو یہاں بنیادی منطق یہ ہے کہ اگر آپ کو نوکری نہیں مل رہی تو آپ کو اپنا کاروبار شروع کر دینا چاہئے- اور اگر آپ یہ راستہ اختیار کرتے ہیں تو حکومت اس کے لئے خرچہ اٹھانے کو تیار ہے-

اور اصل مسئلہ یہی ہے- علمائے معاشیات اور خاص تو پر ایک فوربس رپورٹ کے مطابق دس میں سے آٹھ شروع کئے جانے نئے کاروبار اپنی ابتدا کے اٹھارہ ماہ کے دوران ہی ناکام ہو جاتے ہیں-

اب اس معاملے کو ذرا اس طرح دیکھیں، اگر حکومت نئے کاروبار کے لئے لوگوں کو ایک لاکھ روپے کے ایک لاکھ قرضے دینے کی پلاننگ کرتی ہے تو اس میں سے اسی ہزار قرضے یعنی 8,000,000,000 روپے تو ابتدائی اٹھارہ ماہ کے دوران ہی ڈوب جانے ہیں-

اب اگر بقیہ بیس ہزار قرضوں کی وجہ سے حقیقت میں نئے کاروبار پنپ جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کاروبار کے ذریعے اوسطآً پانچ افراد کو روزگار بھی ملتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل میں حکومت کو ایک لاکھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے 10,000,000,000 روپے خرچ کرنا پڑے یعنی ایک لاکھ روپے فی نوکری-

بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے اور ہماری حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اس سے کھیل رہی ہیں- اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنے اور اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہر کسی کے لئے کارآمد نہیں- بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے ٹیکنیکل تعلیم زیادہ بہتر ہوتی ہے جس سے انہیں اصلی روزگار حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے بجائے اس کے کہ انہیں رٹو طوطوں کی طرح کے گریجویٹس میں تبدیل کر دیا جائے-

جرمنی، فرانس، کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ اقوام تکنیکی تعلیم کو نہ صرف خصوصی توجہ دیتی ہیں اور اس میں سرمایہ کاری کرتی ہیں جس سے نہ صرف مستقل روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان تکنیکی اداروں کے طالب علموں کے لئے نئے کاروبار شروع کرنے کے بھی مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے-

اس کے علاوہ، اپرنٹس شپ پروگرامز اور ٹیکس کریڈٹ پروگرامز بھی یورپ اور امریکہ میں کارآمد رہے ہیں-

ان پروگرامز کا اصل آئیڈیا یہ ہے کہ جب بھی پرائیویٹ سیکٹر کسی گریجویٹ کو نوکری دیتا ہے یا کسی کو اپرنٹس شپ پر رکھتا ہے تو اسے ٹیکس کی مد میں خصوصی چھوٹ دی جاتی ہے- ایسے کسی بھی کیس میں روزگار کے موقع پیدا کرنے کے لئے نجی سیکٹر میں اس کی لاگت کہیں کم ہوتی ہے جبکہ حکومت کو ایسے مواقع پیدا کرنے کے لئے خاصا خرچہ کرنا پڑتا ہے-

آخر میں، لیکن سب سے اہم یہ کہ اگر ہم اس مسئلے کے حل کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنے حساب کتاب میں سب سے پہلے 'انڈرایمپلائمنٹ' کے اصل اعدادوشمار کا حساب کرنے کی ضرورت ہے-

جو بھی کہیں اصل بات یہ ہے کہ ہماری معیشت ہماری ضروریات کی مناسبت سے روزگار کے مواقع پیدا نہیں کر پا رہی اور اگر حکومت یہ کام کر رہی ہے تو اس کا براہ راست اثر پبلک ڈیٹ (PUBLIC DEBT) پر پڑ رہا ہے جو کہ پہلے ہی مضحکہ خیز حد تک بہت زیادہ ہے- (2012 کے اندازوں کے مطابق ہمارے جی ڈی پی کا 62 فیصد بنتا ہے)-

یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ یا تو ہم ایک اندھے کنویں میں پیسے ڈالنے کی طرح رٹو طوطے گریجویٹس پیدا کرنا جاری رکھیں یا پھر اپنی سوچ درست کر کے ٹیکنیکل تعلیم پر توجہ دیں جس میں اپرنٹس شپ پروگرامز اور ٹیکس کریڈٹس شروع کیے جائیں اور 'انڈر ایمپلائمنٹ' کا مسئلہ حل ہو-

اور اگر یہ نہیں تو پھر ہم ایک دوسرے پر الزام دھرنے کا کھیل جاری رکھ سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب بیروزگاری کی وجہ سے پاکستان کے لوگ جرائم اور کرپشن کی دلدل میں دھنستے جائیں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: شعیب بن جمیل

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں