مصنفین اور شاعر کافی عجیب ہوتے ہیں، وہ یوٹوپیا یا مثالی معاشرے کی تشکیل کے خواہشمند ہوتے ہیں، مگر ہر مصنف یا شاعر کا مثالی معاشرے کے حوالے سے تصور الگ ہوتا ہے۔

کچھ شاعروں اور مصنفین کی نظر میں مثالی معاشرہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں زندگی گزارنے کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا اور لکھنا پڑھنا ہی سب سے اہم کام ہوتا ہے، مگر یہ کس حد تک عملی تصور ہے؟ اور اس وقت کیا ہو جب اردو شاعروں کی اس خواہش کو پورا کردیا جائے؟

اس مفروضے کا جواب ہمیں دیا ہے اردو کے نمایاں ترین افسانہ نگاروں میں سے ایک غلام عباس(1909-1982) نے جو بہت دلچسپ ہے۔

غلام عباس نے یہ جواب دیا ہے ایک افسانے جزیرہ سخنوراں میں، جس میں نہ صرف زندگی اور فنون لطیفہ پر کلاسیکل اردو شاعروں اور ان کی محدود سوچ کا مذاق اڑایا گیا ہے بلکہ اس افسانے کا مرکزی خیال بھی اس طنزیہ سوچ پر مبنی ہے کہ اگر شاعروں کو شاعری کے علاوہ کچھ نہ کرنے کی اجازت مل جائے اور ان کی تمام ضروریات ان کے پرستار پوری کریں تو پھر کیا ہوگا۔

یہ افسانہ ایک جوڑے کی زندگی کے گرد گھومتا ہے جو کشتی پر بحرہند کے گمنام جزیروں کی سیر کا ارادہ لے کر طویل سفر کے لیے نکلتا ہے مگر شدید طوفان کے باعث ان کی کشتی ایک نامعلوم جزیرے کے ساحل کے قریب تباہ ہوجاتی ہے۔

اس جزیرے پر شاعروں کی حکومت ہے جنھیں سخنوراں کہا جاتا ہے، اس جزیرے کے رہائشی شاعری کو سب سے بڑی دولت مانتے ہیں جبکہ کسی غیر سخنور کو کسی قسم کی شاعری یا تحریر رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی جبکہ شاعروں کو روزگار کے حصول کے لیے بھی کام نہیں کرنے دیا جاتا بلکہ یہ عام آدمی یا جنھیں مداح کا نام دیا گیا ہے، کا فرض ہے کہ وہ شاعروں کی تمام ضروریات کا خیال رکھیں۔

ایک مداح کسی سخنور کی سماجی حیثیت کو بہتر کرسکتا ہے اور اگر وہ اچھی شاعری کرنے لگے تو حکمران طبقے کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔

شاعری ہی اس جزیرے کا سرکاری مذہب اور ادبی سرقہ سب سے بڑا جرم مانا جاتا ہے، جبکہ زبان کی درستی کا خیال نہ رکھنا بھی قابل تعزیر جرم ہے۔

حکومت چند ناصح یا مشیروں کو مقرر کرتی ہے جو شاعروں کو پرہیزگاری اور محبت میں گرفتار ہونے سے روکنے کا کام کرتے ہیں، تاکہ شاعروں کو ہجو یا مذمتی شاعری کرنے کا موقع مل سکے، تو وہ متاثرہ جوڑا چند ماہ بعد کسی نہ کسی طرح اس جزیرے کے ان انتہاپسند کرداروں سے جان چھڑا کر بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

اس افسانے کا مرکزی خیال ان شاعرون اور مصنفین کا مذاق اڑانا ہے جو ایسے مثالی معاشرے کا خیالی پلاﺅ پکاتے ہیں جہاں صرف انہیں عزت و احترام حاصل ہو، اس غیرعملی خیال کو مسترد کرنے کے ساتھ غلام عباس شاعروں اور مصنفین کے محبت، خوبصورتی اور دنیاوی حقائق کے بارے میں قدیم اور ازکار رفتہ خیالات کا بھی مضحکہ اڑایا ہے۔

اس کتاب میں اردو شاعری کے چند نمونے اس امر کی بہترین مثال ہے کہ ہمارے چند شاعروں کا تصور زندگی کتنا محدود اور غلط ہے، غلام عباس اس کتاب کے ذریعے کہنا چاہتے ہین کہ ان شاعروں کی شاعری نہ صرف غیرعملی ہے بلکہ اس میں زندگی کے حقائق سے بھی منہ موڑا گیا ہے۔

اگرچہ اس افسانے کا خیال ایک فرانسیسی مصنف آندرے موریس(1885-1967) کے ایک پلاٹ سے ضرور لیا گیا ہے مگر جزیرہ سخنوراں مجموعی طور پر ایک مختلف کہانی ہے۔

فرانسیسی مصنف کی کہانی پہلی بار انگریزی ترجمے میں 1928ءمیں شائع ہوئی تھی مگر غلام عباس نے اس خیال کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ اردو میں اردو شاعری کی مثالوں کے ایسے تبدیل کیا کہ یہ ایک حقیقی اردو شاہکار بن گیا۔

اس کتاب میں دیئے گئے شاعری کے حوالے کلاسیکل اردو شاعری کی شاندار عکاسی کرتے ہیں اور کوئی بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوسکتا کہ یہ ایک ادھار لیے گئے خیال پر لکھا گیا افسانہ ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں غلام عباس خود لکھتے ہیں" یہ کتاب مشرقی رنگوں میں ڈھالی گئی ہے اور اس میں روایتی اردو ادب کی جڑوں کو اس طرح شامل کیا گیا ہے کہ خود مجھے یقین نہیں آتا کہ اس طنزیہ افسانے کا خیال آندرے موریس کی کتاب سے لیا گیا ہے"۔

غلام عباس کا یہ افسانہ پہلی بار 1937ءمیں لاہور سے شائع ہونے والے چراغ حسن حسرت(1904-1955) کے ادبی جریدے شیرازہ میں چھپا تھا، جبکہ کتاب کی شکل میں یہ چند تبدیلیوں کے ساتھ 1941ءمیں دہلی میں شائع ہوا، اگرچہ یہ ناقص ایڈیشن تیس برس تک ہندوستان میں تو کسی نہ کسی شکل میں دستیاب رہا مگر پاکستان میں یہ بمشکل ہی مل پاتا تھا، اب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ایک اچھا کام کرتے ہوئے اس کا نیا ایڈیشن چھاپا ہے اور اب یہ ہر ایک کے لیے دستیاب ہے۔

جہاں تک بات ہے شروع میں دیئے گئے سوال کے جواب کی یعنی ایسا معاشرہ جو شاعروں کے لیے تشکیل دیا جائے اور ان کے پرستار ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، تو اس کے لیے افسانے کے آخری چند صفحات میں وہ متاثرہ جوڑا " شاعروں کے جزیرے" کے مستقبل پر تبادلہ خیال کرتا ہے۔

اس بات چیت کا اختتام اس پر ہوتا ہے کہ آئندہ بیس برس میں یا تو تمام مداح خود شاعر بن جائیں گے اور یہاں کوئی بھی کام والا یعنی اجناس اگانے والا نہیں رہے گا اور ہر شخص بھوک سے مرجائے گا یا پرستار اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ کس طرح شاعر انہیں بے وقوف بنارہے ہیں اور وہ ان شاعروں کو مار کر اس ثقافت کا خاتمہ کردیں گے جو ان طفیلی شاعروں نے قائم کردی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ کسی کو لگے کہ یہ اختتام کافی کافی تلخ ہے مگر اسی موڑ پر یہ افسانہ ختم ہوجاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں