اب کیا ہوگا آگے؟

12 اگست 2014
جو لوگ ملک میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں انھیں انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے-
جو لوگ ملک میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں انھیں انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے-

کیا آپ شرط لگائنگے کہ 15 اگست کی صبح جب ہم جاگینگے تو قادری انقلاب کے کمیساروں کے آمرانہ احکامات کے مطابق 'آزاد' ہونگے یا وہی انتہائی رسوائی یا اس سے زیادہ ہمارے نصیب میں ہوگی ---- شریف برادران؟

پتہ نہیں کیوں لیکن میں جب بھی سنجیدگی کے ساتھ عمران خان کی قیادت میں آزادی کا تصور کرتا ہوں تو میری نظروں میں خان کی وہ تصویر ابھرتی ہے جب وہ اپنی تیز ترین، اور بہترین باولنگ کرتے ہوئے، ایک بہت Short اور بہت Wide بال پھینکتے ہیں جسے وکٹ کیپر وسیم باری اپنی بہترین چھلانگ لگانے کی کوششوں کے باوجود روکنے میں ناکام رہتے ہیں-

جیسے ہی بال چار رنز کیلئے باونڈری کے باہر جاتی ہے، کیمرہ باؤلر پر زوم کرتا ہے جس کے چہرے پر سخت تنفر کے تاثرات نظر آتے ہیں اور پھر وہ باری کو کچھ کہتے ہیں (جنہیں سمجھنے کیلئے ہونٹوں کی حرکت کو سمجھنے کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ہے) اسکے بعد عمران خان غصے میں دوسری طرف گھوم کر واپس باولنگ کرنے کیلئے جانے لگتے ہیں-

عمران پورے کا پورا ایک فائٹر ہے اور رہے گا- اس بات میں کوئی شبہہ نہیں- لیکن جیسا کہ باری کے واقعہ سے ظاہر ہے وہ کبھی اس بات کا اعتراف نہیں کرینگے کہ ان سے بھی غلطی ہوسکتی ہے- جہاں ثبوت ناقابل تردید ہو وہ زیادہ غور نہیں کرتے اور اگر سامنے بھی ہو تو وہ اکثر اس سے انکار کرتے ہیں-

جو لوگ فطرتاً فائٹر ہوتے ہیں ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وقت کے وقت فیصلے کرتے ہیں اور تمام ممکنہ امکانات کو پیش نظر نہیں رکھتے- اگر وہ 14 اگست کے منصوبے کی وجوہات اور اس کے رد عمل کونہ جانتے ہوں، یا انھیں اسکی یقین دہانی کرادی گئی ہے، تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ ان کے پیر کھلے ہونگے، ہاتھ کولھوں پر ہونگے اور آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہے ہونگے کہ کس کو اس کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے- انھیں یقین ہونا چاہیئے کہ اس بار کوئی باری آس پاس نہیں ہوگا-

جو لوگ بھی ملک میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں انھیں انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے- واقعی- لیکن یہ کہنا کہ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں، نہ صرف انتہائی غلط بلکہ خطرناک حد تک غیر ذمہ دارانہ ہے-

ہمارے منفرد کرکٹر-سیاستداں کا رویہ ایسا ہی نظر آتا ہے تاوقتیکہ آنیوالے ہفتے میں وہ اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی پیدا نہ کرلیں- ان کی پارٹی کے بعض اہم اراکین مثلاً اسد عمر اور ڈاکٹر عارف علوی اس بات پر مصر ہیں کہ انکی پارٹی اصلاحات چاہتی ہے، سسٹم کو توڑنا نہیں چاہتی-

لیکن ان کے لیڈر کا یہ عہد کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نئے انتخابات، ظاہر ہے، "اصلاح شدہ" الیکشن کمیشن کے تحت چاہتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ سسٹم ٹوٹ جائیگا، کیونکہ خود پی ٹی آئی کا رہنما یہ بتا نہیں پارہا ہے کہ یہ سب کچھ موجودہ آئینی دفعات کے تحت کیسے ممکن ہے-

سو اگر انکا ملین-آدمیوں (اور عورتوں) کا مارچ دارالحکومت پر قبضہ کرلیتا ہے اور اسے دنوں بلکہ ہفتوں تک محصور رکھتا ہے تو اسکے نتیجے میں شہر جسطرح جامد ہوجائیگا اور جو انتشار پھیلے گا وہ معیشت اور سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوگا- بہتر ہوگا کہ اس کے خطرناک اثرات کو سمجھا جائے-

حکومت کا خاتمہ ضروری ہے- اور اگر فوج چند سالوں کے لئے آجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں، یہ بات پی ٹی آئی کی ایک مشہور شخصیت ابرار الحق نے اسلام آباد میں ایک ٹی وی اینکر کے ساتھ بات چیت کے دوران کہی تھی- اس کو ٹویٹ بھی کیا گیا- آیا اسکی وجہ انکی سیاسی ناپختگی تھی یا یہ پارٹی کی اندرونی سوچ ہے؟

کون جانتا ہے کہ اس تناظر میں کپتان کون ہوگا؟

موجودہ صورت حال میں عمران کی تلخی بہت گہری ہے کیونکہ انھیں یقین ہے کہ گزشتہ الیکشن ان سے چھینا گیا ہے- لیکن ان کی زبردست انا کو کیا ایسی بری چوٹ لگی ہے کہ انھوں نے سب کچھ داو پر لگا دیا ہے؟ عقل تو یہی کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے-

لیکن پاکستانی سیاست میں عقل سے کیا واسطہ؟

شریف برادران کے تعلق سے عوام کی رائے میں جو غیر معمولی کمی آئی ہے اس کا تناسب بالکل وہی ہے جتنے گھنٹے لوگوں کو بجلی نہیں ملتی- انھوں نے بڑے بڑے وعدے کئے جسے نہ تو وہ پورا کرسکتے تھے اور نہ ہی کئے اور اب وہ اسے بھگت رہے ہیں-

اور اب آپ نے سنا ہوگا کہ عمران خان اس وعدے کے ساتھ اپنے حامیوں کو متحرک کررہے ہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں تیزی سے کمی کرینگے اور بجلی دو روپے فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جائیگی-

دو روپے فی یونٹ؟ یقین نہیں آتا، لیکن انھوں نے بالکل یہی کہا تھا- اگر ان کا یہ دعویٰ مضحکہ خیز تھا تو آئیے دیکھیں اسی دن اور بھی اونچی اڑان کس نے اڑی تھی-

انقلاب کے رہنما، ڈاکٹر طاہرالقادری نے، جو شائد 14 اگست کے آزادی مارچ کو پیچھے چھوڑ دیں ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا کہ شریف خاندان ملک سے بھاگنے والا ہے- ثبوت میں انھوں نے حمزہ شہباز کے اس خط کا حوالہ دیا جو انھوں نے امریکی سفارت خانے کو لکھا تھا کہ ان کے چند گھریلو ملازمین کو ویزا دیا جائے-

اگر قادری تھوڑی بہت تحقیق کرلیتے تو انھیں پتہ چلتا کہ شاہی قافلہ کیسے سفر کرتا تھا: ہمیشہ اپنے خادموں کے ساتھ- واقعہ تو یہ ہے کہ جب شریف خاندان کے بچے بظاہر یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیئے 1990 میں وزیر اعظم نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں لندن گئے تھے تو ان کے ایک خاص قصائی سے بکرا ذبح کروا کے اس کے بہترین حصے کا گوشت ہر ہفتے پی آئی اے کے ذریعہ لندن بھیجا جاتا تھا-

کھانا شریف خاندان کی کمزوری ہے- اس لیئے بغیر سازو سامان کے وہ سفر نہیں کرسکتے اور کھانے پینے کی تمام چیزیں ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں- اور ہمیں یقین ہے کہ خود اس انقلابی رہنما کو بھی ایسی ہی توجہ ملتی ہوگی اگر ان کے ساز و سامان سے لیس، ائر کنڈیشنڈ، فولادی ڈھانچے والے احتجاجی کنٹینر کی مثال سامنے رکھی جائے-

تاہم، موجودہ بحران نے شریف بھائیوں پر دباو ڈالا ہے کہ وہ انکساری سے کام لیں اور نہاری اور پائے کی بجائے جن کے وہ رسیا ہیں ہر طرح کے سیاستدانوں کی طرف توجہ دیں- وہ اپنے اتحادیوں کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں اور انھیں اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ انھیں اتنی وسیع حمایت حاصل ہوجائے کہ وہ حکومت گرنے کے خطرے سے خود کو بچا سکیں-

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس ساری کھینچا تانی میں اس کھیل کے سارے کھلاڑی کوئی سبق نہیں سیکھ رہے ہیں- آج ان میں سے اکثر کھلاڑیوں کو جس مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انھوں نے جو وعدے کئے تھے وہ ناممکن تھے- اور رائے دہند گان اس بات میں حق بجانب ہونگے اگر وہ انھیں معاف نہ کریں-

میں کوئی نجومی نہیں ہوں کہ یہ کہہ سکوں کہ 15 اگست کو کیا ہوگا- لیکن یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ لوگوں کے صبر و برداشت اور خاکیوں کی قوت برداشت کی بھی ایک حد ہے- اب سیاستدانوں پر منحصر ہے کہ وہ حالات کے مطابق کیسے عمل کریں-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Aftab Ahmed Aug 12, 2014 06:04pm
’آج ہمیں جس صورت حال کا سامنا ہے وہ نفرت کی پیداوار ہے۔ امن اور محبت کے بلند نظریات کو اپنا کر ہی ہم اپنی سرزمین پر امن قائم کرسکتے ہیں۔‘