کیا ہمیں بایئکاٹ کرنا چاہیے؟

04 ستمبر 2014
جب بھی ہم کچھ خریدتے ہیں، تو ہم کسی بزنس مین، کمپنی، پالیسی، اور پراڈکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔
جب بھی ہم کچھ خریدتے ہیں، تو ہم کسی بزنس مین، کمپنی، پالیسی، اور پراڈکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔

پچھلے ایک مہینے سے تقریباً ہر گفتگو کا رخ دو موضوعات کی طرف مڑ جاتا ہے، غزہ، اور دھرنے۔ مجھے اب تو یاد بھی نہیں کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے بعد میں کتنی دفعہ "اسرائیل کا بائیکاٹ کرو" کا جملہ سن چکی ہوں۔

اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ جس کا سامنا ہم کرتے ہیں، وہ یہ کہ آخر پاکستانیوں کو فلسطینیوں کی مشکلات کے بارے میں کیسا محسوس کرنا چاہیے۔

کوئی ایسا پیمانہ نہیں، جس سے کسی کی مشکلات یا احساسات کو ماپا جا سکے۔ لیکن پھر بھی میں نے اخبارات میں کئی مضمون پڑھے ہیں، جن میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب پاکستان میں اتنے مسائل ہیں، تو ہم غزہ پر مگرمچھ کے آنسو کیسے بہا سکتے ہیں۔ اور کچھ میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں غزہ اور مغربی کنارے میں جاری بربریت کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھانی چاہیے۔

حقیقت یہ ہے، کہ یہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، انسانی جانوں کا ضیاع کبھی بھی کہیں بھی ہو، قابل مذمت ہے، اور اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کی جانوں کو کسی دوسرے کی جانوں پر فوقیت دی جائے۔

کیا یہ سچ ہے، کہ اگر ہماری فکر پہلے اپنے ملک کی جانب مرکوز ہو، تو ہی بہتر ہو گا؟ شاید۔ پر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا میں دوسری جگہوں پر جاری ظلم و ستم کے بارے میں کچھ محسوس نہیں کر سکتا۔ کسی ایک جگہ کے لیے اپنی ہمدردی مخصوص کر دینا غلط سوچ ہے۔

مجھے پچھلے ایک ماہ میں یہودی پراڈکٹس کی کم از کم چھ مختلف لسٹیں مل چکی ہیں۔ میں نے اس طرح کی مزاحمت کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے، کیونکہ کچھ لوگوں کے لیے اس طرح کی بائیکاٹ لسٹیں صیہونیت کے بجائے یہودیت کے خلاف ہو جانے کا عذر فراہم کرتی ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ ہم سب لوگ اب یہودیوں اور صیہونی یہودیوں میں فرق کرنا سیکھ لیں۔ تمام یہودی صیہونی ہیں، ایسا کہنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ تمام پاکستانی دہشتگرد ہیں۔ ایک بے بنیاد دعوے کے علاوہ یہ ایک انتہائی احمقانہ بات بھی ہے۔ اسی طرح "یہودی" کمپنیوں اور پراڈکٹس، اور ان کمپنیوں اور پراڈکٹس میں فرق کرنا چاہیے جو اسرائیل میں کام کرتی یا اسے فائدہ پہنچاتی ہیں۔

میں نے اپنی ایک دوست جو فلسطین میں تنازعے کے حل پر کام کرچکی ہیں، سے اس بارے میں پوچھا۔ انہوں نے مجھے ایک دلچسپ بات بتائی۔

انہوں نے کہا کہ صارف کی آگاہی ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ اگر آپ ایک طرف سے نہیں تو دوسری طرف سے ضرور زخمی ہوں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم یہ دیکھے بغیر کہ دنیا پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، کچھ بھی خرید لیں۔ لیکن اس معاملے میں انتہائی جذباتی ہو جانا بھی نقصاندہ ہے۔ ایک شخص کو چھوٹے پیمانے یعنی اپنے روز مرہ کے استعمال کی اشیاء سے شروع کرنا چاہیے۔ اس لیے آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آپ کیا خرید رہے ہیں، اور کمپنیاں کیا بیچ رہی ہیں۔

میں سمجھ گئی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھیں۔ ایک دفعہ اگر کوئی شخص کمپنیوں کی تاریخ کی تحقیق کرنا شروع کر دے، تو شاید ہی کوئی کمپنی اخلاقیات کے معیارات پر پوری اترے گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اگر پیسے کی وجہ سے دنیا چلتی ہے، تو ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک فرد کی خریداری بالکل ووٹ کاسٹ کرنے کے برابر ہے۔ جب بھی ہم کچھ خریدتے ہیں، تو ہم کسی بزنس مین، کمپنی، پالیسی، اور پراڈکٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ہم اس کمپنی سے اخلاقیات کا تقاضہ کر سکتے ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات ثابت شدہ ہے، کہ اقتصادی بائیکاٹ بڑے پیمانے پر مؤثر رہے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہیں، تو اگر صارفین مشتعل ہو کر کچھ خریدنا بند کر دیں، تو کمپنیاں ضرور اس بارے میں کچھ کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ کم پیسے کا مطلب کاروبار کی تباہی، اور یہی نقطہ اثر انگیز ثابت ہوتا ہے۔

مجھ سمیت زیادہ تر پاکستانی کم ہی شعور رکھتے ہیں کہ ہم کیا خرید رہے ہیں۔ پاکستان میں حالات کو دیکھیں، تو فطری طور پر ہمیں اس سے بھی زیادہ بڑے مسائل درپیش ہیں، پر اس کا مطلب یہ نہیں ہے صارف کی آگاہی کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔

اس مسئلے پر کئی بحثوں کے بعد میرے ایک اور دوست نے مجھے مشورہ دیا، کہ میں اپنے فون میں Buycott نام کی ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کر لوں۔ اور یہ ایک دلچسپ تجربہ رہا ہے۔

یہ ایپلیکیشن صارف کو ان تمام انسانی حقوق اور کاروباری اخلاقیات کی لسٹ پیش کرتی ہے، جس میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

یہ ایپلیکیشن مخلتف کمپنیوں کی اخلاقی تاریخ اور ان کے برانڈز کے تنازعات سے صارف کو آگاہ کرتی ہے۔

دنیا میں بہت ہی تھوڑی کمپنیاں اخلاقیات کے معیارات پر پوری اترتی ہیں، کیونکہ تمام کمپنیاں منافع کے لیے کاروبار کرتی ہیں۔

یہاں پر انسانی فطرت کے بارے میں ایک عنصر سامنے آتا ہے۔

جب ایک شخص ایسی پراڈکٹ خریدتا ہے، جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ کمپنی نے مثال کے طور پر بچوں سے مزدوری لی ہے، یا غیر قانوںی اسرائیلی بستیوں کی حمایت کی ہے، تو یہ ہمارے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے، کہ ہم کسی مقصد کے لیے کیا نہیں چھوڑ سکتے۔

بائیکاٹ لسٹ میں ایسے کئی بڑے نام موجود ہیں، جن کا بائیکاٹ کرنا انسان کے لیے فطری طور پر مشکل ہو گا۔

کوکا کولا اور نیسلے کے ساتھ ساتھ لسٹ میں انٹیل بھی موجود ہے۔ تو کیا ہم کمپیوٹر استعمال کرنا چھوڑ دیں گے؟ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتی ہوں، کہ اس نقطے پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کمپیوٹر استعمال کرنا والا شخص اوسطاً پانچ یا چھ سال میں ایک بار کمپیوٹر خریدتا ہے، لیکن کوکا کولا ہفتے میں کئی بار خریدی جاتی ہے۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ ایک شخص یا تو تمام پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرے، یا کسی کا بھی نہیں۔

ہم اس چیز سے شروع کیوں نہیں کرتے، جس کو ہم فوری طور پر چھوڑ سکتے ہیں۔

چار میں سے سات پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے، کیوںکہ ہم اس بات کو پھر بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ ان چار کمپنیوں کو ہمارا منافع نہیں مل رہا۔ اور جب ہم اگلی دفعہ کمپیوٹر خریدیں گے، تو ہم متبادل کی طرف غور کریں گے، اور اگر متبادل حاصل نا ہوا، تو شاید ہم کمپنیوں کو اس بات پر تو مجبور کر سکیں کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لائیں، اور اخلاقیات کے معیارات کی پاسداری کریں۔

اگر کچھ نا بھی ہو، تب بھی کم از کم مقامی طور پر تیار شدہ پراڈکٹس کی حوصلہ افزائی ضرور ہو گی۔ بھلے ہی کسی شخص کو اپنی خریداری کی طاقت کا اندازہ ہو یا نا ہو، لیکن میں اس بات کو سمجھ چکی ہوں۔ ایسا کرنا بھلے تھوڑی حد تک ہی سہی، پر ضروری ہے۔

ہم بے ذہن جسم نہیں ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ معلومات حاصل کر سکتے ہیں، ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنا پیسہ کس کو دے رہے ہیں، کتنا دے رہے ہیں، اور کیوں دے رہے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں میڈیا رائٹنگ، کمیونیکیشن، اور صنفی علوم پڑھاتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Yusuf Sep 04, 2014 09:59pm
Good though provoking article with a new dimension......
زاہد بٹ Sep 05, 2014 02:55pm
اچھی بات لکھی ہے، پر مکمل نہیں ؟ آپ نے مضمون ادھورا چوڑ دیا ؟
آشیان علی Sep 05, 2014 05:09pm
ہمیں خریدتے وقت صرف معیار کا خیال کرنا چاہیے. لیکن اگر کبھی مذہبی وابستگی کی وجہ سے بائیکاٹ کرنا پڑے تو پراڈکٹ کا نہیں ایجادات کا بائکاٹ کرنا چاہیے. مثال کے طور پر سیمنٹ، کرش مشین، تعمیراتی مشینری، اس کی ٹرانسپورٹ سب کفار کا بنایا ہوا ہے تو ہمیں عمارتیں چھوڑ کر غاروں میں شفٹ ہونا چاہیے. اگر ٹیکسٹائل مل کپاس کے بیج ، ادویات اور کپاس کی فصل بونے سے لے کر کپڑا کی سلائی تک کے تمام آلات کفار کی ایجاد ہیں تو درختوں کے پتے پہن لینا چاہیے. اگر گاڑی، جہاز، ٹرین اور اس کا فیول اس میں کسی بھی موقع پر کفار کی ایجاد تخلیقات، آئیڈیاز شامل ہوں تو گدھے کی سواری بہت ثواب دے گی. اگر ڈبل روٹی کا پلانٹ گندم کی بیجائی سے لے روٹی بنانے تک یا تندورمیں استعمال ہونے والی گیس کو زمیں سے نکالنے سے لے کر تندور میں جلانے تک کہیں بھی کفار کی شمولیت ہے تو کچی گندم کھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے گندم بھی جو کھاد اور مشینری کے بغیر کاشت، کٹائی، ٹرانسپورٹ، اور سٹاک کی گئی ہو . بجلی، کمپیوٹر ، انٹر نیٹ سافٹ وئر کفار کی تخلیقات ہیں تو درختون کی چھال پر لکھنا ایمان بچانے کا بہترین ذریعہ ہیں ! ماریہ عامر محترمہ اگر بات بایکاٹ تک چلی ہی گئی ہے تو ڈسپرین کی گولی تو ایجاد کر لو یا ایک عدد بال پوائنٹ ! .ایجاد تخلیق آئیڈیا کے بغیر بایکاٹ کا نعرہ لگانا منافقت کے سوا کچھ نہیں ہے . اگر ہے تو مجھے اپنی آنکھ سے لینز نکالنا ہون گے ! گلاسز تو کھلم کھلا گناہ ہے .