ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد کے بارش سے متاثرہ دھرنے سے ساری توجہ ہٹ کر پنجاب کے سیلابی میدانوں کی جانب ضرور منتقل ہوگئی ہو مگر اب وہاں مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی کشمکش نے وہاں زور پکڑنا شروع کردیا ہے۔

منگل کو وزیراعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان دونوں سیالکوٹ پہنچے جو کہ سیلابی ریلوں کا سب سے پہلے نشانہ بنا۔

طاہر ہے اس موقع پر وزیراعظم اور ان کے واحد نمایاں چیلنجز کا موازنہ بھی ہوا۔

وزیراعظم کا سیالکوٹ اور چند دیگر سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کو معمول کے مطابق سنجیدگی اور شائستگی پر مشتمل تھا، اس کے مقابلے میں عمران خان کا دورہ جو ان کے خیال میں اسلام آباد میں جاری دھرنے سے توجہ ہٹنے کے پیش نظر ضروری تھا، نے جوش کی لہر پیدا کی۔

پی ٹی آئی یہ دکھانے خاص طور پر ایک جملہ شو کرنے میں کامیاب رہی" وہاں فیکٹریوں کے مالکان کی ہدایت پر صنعتی ورکرز کا اچھا خاصا ہجوم عمران خان کے استقبال کے لیے جمع ہوگیا تھا"۔

سیالکوٹ کی ان فیکٹریوں سے دور، جن کے مالکان متبادل سیاسی قوت کے پیش نظر عمران خان کے ساتھ نظر آئے، پی ٹی آئی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کے سربراہ کے لیے اتنا ہجوم جمع کرلیا جائے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہو کہ وہ ہی نواز شریف کے حقیقی مدمقابل ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پی ٹی آئی کی سیاست کا حصہ نہیں رہا بلکہ یہ سرکاری عہدیداران کے لیے اپنی کارکردگی کے اظہار کی جنگ بن گیا اور ان کے لیے نیا چیلنج اس وقت سامنے آیا جب اپوزیشن کی مہم کے باعث عمران خان اقتدار میں موجود افراد کا پرجوش تعاقب کررہے تھے اور ان کے پاس کچھ رقم جمع کرنے کا اچھا موقع تھا۔

حکومت کی تمام مشینری کے ساتھ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو سیلاب کی آفت کی سادہ وضاحت کے مقابلے میں اپنی پیدا کردہ مشکلات کو بیان کرنے کے ناممکن ٹاسک کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹیلیویژن چینیلز کی موجودگی جو اپنے ناظرین کے لیے چٹ پٹی کہانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں، جبکہ وہاں پہلے ہی ایسی کچھ کہانیاں سامنے آچکی تھیں کہ شریف برادران کے استقبالیہ کے لیے متاثرہ افراد کی ریلیف پر زیادہ توجہ نہیں دی جاسکی۔

مثال کے طور پر وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنی معمول کی مون سون کی مشق کے مطابق رواں ہفتے کے شروع میں حافظ آباد کے سیلابی پانی میں کشتی پر نظر آئے، اس وقت ایک ٹیلی ویژن کا عملہ ایک ریلیف کیمپ کے مقام پر واپس آیا تو وزیراعلیٰ کو دکھانے کے لیے لائی گئی ادویات غائب ہوچکی تھیں جبکہ بھوکے متاثرین کے لیے لائی جانے والی دیگوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ انہیں کافی گھنٹوں سے استعمال تک نہیں کیا گیا۔

وہ عملہ جو وزیراعلیٰ کے معائنے کے دوران کافی باوقار انداز سے کھڑا تھا، وہ بھی اس جگہ سے غائب ہوچکا تھا، اور وہاں صرف سیاب زدہ افراد ہی باقی رہ گئے تھے جو حکام کی غفلت کی تازہ کہانیاں بیان کررہے تھے۔

تو اس منفی پبلسٹی سے فرار ممکن نہیں، جتنا زیادہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے اندر جارہے ہیں اتنی ہی بلند آواز میں ناقص نظام کی شکایاات انہیں سننی پڑ رہی ہیں،اور یہ وہ نکتہ ہے جسے پی ٹی آئی اپنے حق میں کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بعد کی کشیدہ صورتحال، جس میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو براہ راست عوامی تحریک کے کارکنوں کے قتل میں ملوث قرار دیا گیا ہے، ایک شخص یا ایک خاندان تک اختیارات مرکوز کرنے کی پالیسی پر بھی اتنی ہی شدت آگئی ہے۔

اگر ماڈل ٹاﺅن کا واقعہ بطور منتظم شہباز شریف کی ساکھ کے لیے جھٹکا تھا تو سیلاب زدہ علاقوں کا سفر ان کے لیے نیا بھوت بن گیا ہے۔

اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد بڑی تعداد میں حقیقی شکایات کی گونج آج کے پاکستان میں میڈیا، پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی احتجاجی تحریکوں کے مقابلے میں زیادہ بلند ہے۔

سوال یہ نہیں کہ آکر معاملات کو کیسے آگے بڑھایا جائے بلکہ یہ ہے آخر یہ معاملات ہے کیا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی جانب سے اپنے دورے کے دوران کہے جانے والے الفاظ اس وقت آنسوﺅں میں فوری طور پر ڈوب جاتے جو اعلیٰ حکام کی واپسی کے بعد متاثرہ افراد کی آنکھوں میں بھرآتے ہیں۔

قمر جاوید حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ہیں، ان کا صرار ہے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے دورون کی عوام کی نظر میں زیادہ اہمیت نہیں"درحقیقت یہ ان کے لیے جوابی دھچکا ثابت ہوا ہے کیونکہ ان کی روزانہ کی مداخلت سے نظام کی خامیاں زیادہ نمایاں ہوگئی ہیں"۔

دیگر افراد اس بات پر توجہ دلاتے ہیں کہ شریف برادران کے لیے ن لیگ کے اراکین کے ہمراہ ان علاقوں کے دورے اس وقت کافی خطرناک ہیں کیونکہ وہ اراکین غیرجانبداری سے کام نہیں لے رہے۔

مثال کے طور پر جھنگ کو حالیہ تاریک کے سب سے بدترین سیلاب سے خطرات لاحق ہیں، ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ ضلع میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے منصوبے اس علاقے سے قومی اسمبلی کے اراکین اثر انداز ہوئے اور انہوں نے منگل کو وزیراعلیٰ کے دورے کے دوران اس میں تبدیلیاں کرائیں۔

سیدہ عابدہ حسین جو جھنگ سے کئی بار قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئیں، کو کوئی شبہ نہیں کہ پانی کا رخ موڑنے کا فیصلہ ن لیگ کے دو اراکین کی رائے پر کیا گیا" جس نے جھنگ کے گنجان آبادی والے علاقوں کو سیلابی پانی کے لیے کھول دیا ہے، یہ وہ فیصلے ہیں جنھیں انتظامیہ پر چھوڑ دینا زیادہ بہتر ہے"۔

یہ تو پرانی حقیقت ہے کہ حکومت لوگوں کو ذہن میں رکھتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ ان کے تعاقب کرنے والے صورتحال کو سامنے لاکر فائدہ نہ اٹھالیں۔

درحقیقت پنجاب میں ڈوبنے والے علاقوں میں بڑی تعداد ان حلقوں کی ہے جن کے بارے میں پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہاں 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔

سیالکوٹ اور حافظ آباد جہاں پی ٹی آئی نے حال ہی صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، سیلاب سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور یہ دونوں پی ٹی آئی کی ان جگہوں کی فہرست میں اوپر ہیں جہاں ان کے مطابق انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔

لاہور جو پی ٹی آئی کے ان دعوﺅں کا مرکز ہے، کو بھی بارش سے متعلقہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

ان متنازعہ اضلاع جو ن لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان تنازعات کا مرکز سمجھے جاسکتے ہیں، میں سیلاب پر سیاست کو اس کے تمام تر پیچیدہ حربوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔

یہ پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں کے لیے ایک موقع ہے مگر شریف کیمپ کی خواہش یہی ہوگی کہ وہ سیلاب جیسے بڑے مسئلے کو زیادہ پرامن وقت میں حل کرتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔

تبصرے (0) بند ہیں