امید کی کرن

23 نومبر 2014
بدترین گورننس والے صوبہ سندھ میں تھوڑے سے بجٹ سے پی پی ایچ آئی پروگرام کی کامیابی امید کی کرن نہیں تو کیا ہے؟
بدترین گورننس والے صوبہ سندھ میں تھوڑے سے بجٹ سے پی پی ایچ آئی پروگرام کی کامیابی امید کی کرن نہیں تو کیا ہے؟

سخت ترین دشمنی، جس کی ایک بنیادی وجہ غیر حل شدہ تنازعہ کشمیر ہے، کی وجہ سے پاکستان اپنے روایتی حریف ہندوستان کو ضرب کا جواب ضرب سے دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا، بھلے ہی یہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری ہو یا میزائل پروگرام کی۔

1971 کی ہندوستان پاکستان جنگ میں پاکستان کی شرمناک شکست کے بعد فیصلہ ساز حلقوں میں موجود کئی لوگوں نے یہ عہد کیا تھا کہ اب دوبارہ نہیں، اور ہتھیاروں کی دوڑ اسی پوزیشن کا ایک اظہار ہے۔

کیا آپ گن سکتے ہیں کہ یہ دلیل کتنی بار پیش کی جاچکی ہے، کہ اگر نیوکلیئر ہتھیار نہ ہوتے تو دونوں ممالک میں ایک اور جنگ ہوجاتی۔ اور اس جنگ کو شروع کرنے کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی تھی۔ مثلاً کارگل کا واقعہ، ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملہ، یا لشکرِ طیبہ کی جانب سے ممبئی قتلِ عام۔

اس نقطہ نظر کے حساب سے، جنگی جنون میں کمی کی وجہ نہ دوسرے کو طاقتور تسلیم کرنا ہے، اور نہ ہی عالمی پریشر اس کا باعث ہے۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کی صورت میں دونوں ہی تباہی سے دوچار ہوں گے۔

اس لیے پاکستانی نقطہ نگاہ سے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی یہ معقول وجہ ہے۔ اس کے حامیوں کی دلیل یہ ہے کہ مقابلے کی فضا ہمیشہ سب سے اچھے نتائج دیتی ہے اور اس سے وسائل کی بہترین تقسیم بھی ممکن ہوتی ہے۔

تو پھر ہم نے اس مقابلے کی فضا کو صرف وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک ہی محدود کیوں رکھا ہوا ہے، جن کی وجہ سے یہ خطہ ڈیڑھ ارب لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اسے دوسرے سیکٹرز تک کیوں نہ بڑھایا جائے؟

مجھے یاد ہے جب بہت بہت سالوں پہلے مجھے معلوم ہوا تھا کہ کئی شہروں اور علاقوں میں قائم انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنولاجی میں تعلیم کا معیار اتنا بلند ہے کہ دنیا کی پہلے نمبر کی یونیورسٹی میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنولاجی امریکہ میں ان کو ٹرانسفر دیے جاتے ہیں، تو میری حیرت کا ٹھکانہ نہیں تھا۔

میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ حیرت آئی آئی ٹی کی خامیوں کے بارے میں میری معلومات کے بجائے میری لاعلمی کی وجہ سے تھی۔ اسی دوران ایک اور لطیفہ بھی زیرِ گردش تھا، اور اتنا بے تکا تھا کہ کسی کو بھی اس کے لطیفے ہونے میں کوئی شک نہیں ہوسکتا۔

لطیفہ کچھ یوں ہے۔ ہماری ٹیکنیکل یونیورسٹیوں میں سے ایک کا انجینیئرنگ گریجویٹ جاب کے لیے شارٹ لسٹنگ کے بعد انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے۔ انٹرویو میں اس سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ ہارس پاور کے بارے میں بتائیں۔ نوجوان انجینیئر جواب دیتا ہے کہ سر میں انجینیئر ہوں جانوروں کا ڈاکٹر نہیں۔

کیا آپ یہ خواہش نہیں رکھتے کہ ہم نے جتنے جی جان کے ساتھ ایٹمی ہتھیار بنانے میں ہندوستان کا مقابلہ کیا ہے، اسی طرح ہم اس کا مقابلہ تعلیم میں بھی کرتے؟ نہیں ڈپریس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جگہیں ایسی ہیں جہاں ہم نے اپنے روایتی مخالف کا مقابلہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر کرکٹ میچز۔

لیکن آئیں دیکھیں کہ اس سال 13 جنوری کو کیا ہوا تھا۔ اس دن آخری بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئے تین سال مکمل ہوئے۔ دو مہینے بعد 27 مارچ کے دن ہندوستان کو پولیو سے پاک قرار دے دیا گیا۔

یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ ایک ارب سے زیادہ کی آبادی جس میں ہمارے ملک سے کہیں زیادہ قسم کے لوگ آباد ہیں، جن کے اپنے توہمات ہیں، اور کشمیر میں علیحدگی پسندوں سے لے کر نکسل اور ماؤ باغیوں کا مقابلہ کرنے تک کے چیلنجز ہیں۔

صرف ہندوستان ہی نہیں، بلکہ پچھلے 25 سالوں کے دوران پوری دنیا نے ہی پولیو کے خلاف جنگ میں زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 1988 میں دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ کیسز رپورٹ کیے گئے تھے جبکہ 2013 تک یہ تعداد 99 فیصد کم ہوکر صرف 400 سے کچھ اوپر رہ گئی تھی۔

اس سال ان تین ممالک جہاں پولیو اب بھی موجود ہے، 250 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان، نائیجیریا، اور افغانستان شامل ہیں۔ نائیجیریا کے کیسز کا 95 فیصد شمالی نائیجیریا کے مسلم علاقوں میں رپورٹ ہوا، جبکہ 250 میں سے 220 کیسز پاکستان میں رپورٹ ہوئے۔

تینوں ممالک میں ہی ویکسینیشن کی مخالفت قدامت پسند مذہبی گروہوں اور ملاؤں نے کی ہے جنہوں نے عوام میں جھوٹ پھیلایا ہے کہ یہ ویکسین مغرب کی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے سے روکی جاسکے۔

نائیجیریا اور افغانستان میں پولیو مہم کے بارے میں زیادہ معلومات نہ ہونے کے باعث اس بارے میں زیادہ نہیں کہا جاسکتا لیکن ہمارے کیس میں یہ واضح ہے کہ کس طرح ریاست اور اس کے اداروں نے شہریوں کو مایوس کیا ہے۔ پاکستان کے پولیو پروگرام پر حالیہ رپورٹ پر صرف ایک نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ پرائم منسٹر پولیو سیل کس قدر بے ترتیب اور ناکامی سے دوچار ہے۔

جب حکومت اس ناکامی کا شکار ہو، تو امید ہوتی ہے کہ اپوزیشن حکومت کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ لیکن تب کیا کیا جائے اب اپوزیشن کا ایک دھڑا صرف اس لیے اس پر آواز نہیں اٹھائے گا، کہ کہیں اس پر اس حوالے سے اس صوبے میں تنقید نہ ہو جہاں وہ اقتدار میں ہے۔ جبکہ دوسرا بڑا گروپ نہ سوال کرنا چاہتا ہے نہ قانون سازی کرنا چاہتا ہے بلکہ سڑکوں پر تبدیلی کی مہم چلانے میں مصروف ہے۔

نہیں، میں یہ مضمون ناامیدی پر ختم کرنے کی چاہ کے باوجود ناامیدی پر ختم نہیں کروں گا۔ گذشتہ ہفتے میری ایک اچھی دوست اور پاکستان کی بہترین کرکٹ جرنلسٹ فرشتے اسلم میرے کالم سے ناخوش تھیں۔

ملک میں جاری فرقہ واریت پر میرے کالم نے ایسی مایوس کن تصویر پیش کی کہ میری یہ دوست اداس ہوگئیں۔ لیکن اس کے بعد میں نے اس اخبار کی ویب سائٹ پر ایک ایسی چیز پڑھی، جس نے مجھے امید سے بھر دیا۔ بھلے ہی روشنی کم ہو، لیکن روشنی روشنی ہی ہوتی ہے۔

یہ صوبہ سندھ میں پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹیو (PPHI) کی کارکردگی کی رپورٹ تھی۔ صوبہ سندھ اپنی خراب گورننس کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ سندھ کے صحت بجٹ کے صرف 0.5 فیصد پر چلنے والے اس پروگرام کی کامیابی کی رپورٹ دیکھ کر میں نے رپورٹر سے رابطہ کیا۔

موریل شاہ نے مجھے یقین دلایا کہ رپورٹ کی گئی سب چیزوں کا ثبوت موجود تھا۔ مفت تشخیص، علاج، PPHI کے زیرِ انتظام صاف ستھرے بنیادی صحت مراکز سے دواؤں کی فراہمی امید کی کرن نہیں تو اور کیا ہے؟

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 1 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں