پیرس حملہ کرنیوالے ایک شخص نے گرفتاری دے دی

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2015
ایک پولیس افسر فائرنگ کا نشانہ بننے والے رسالے کے دفتر کی طرف اشارہ کر رہا ہے— رائٹرز فوٹو
ایک پولیس افسر فائرنگ کا نشانہ بننے والے رسالے کے دفتر کی طرف اشارہ کر رہا ہے— رائٹرز فوٹو
ایک حملہ آور گاڑی سے اتر کر فائرنگ کر رہا ہے— ویڈیو سکرین گریب
ایک حملہ آور گاڑی سے اتر کر فائرنگ کر رہا ہے— ویڈیو سکرین گریب

پیرس : گزشتہ روز ایک مزاحیہ سیاسی رسالے کے دفتر پر فائرنگ کرنے والے ایک حملہ آور نے ازخود گرفتاری دے دی ہے جبکہ فرانسیسی پولیس کی جانب سے دیگر دو حملہ آوروں کی تلاش جاری ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی نے پولیس کے حوالے سے بتایا کہ حملہ آوروں کا تعلق ممکنہ طور پر یمن کے القاعدہ نیٹ ورک سے ہے۔

فرانس کے صدر فرینسکو ہالینڈ نے جمعرات کو ملک میں یوم سوگ کا اعلان کردیا، جبکہ جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ رسالے کے دفتر پر حملے کا واقعہ ظلم و بربریت کی ایک غیرمعمولی مثال ہے۔

حملے کے بعد فرانس میں قائم میڈیا کے دفاتر، عبادت گاہوں، ٹرانسپورٹ اور دیگر حساس مقامات کی سیکیورٹی مزید بڑھا دی گئی ہے۔

اس سے قبل فرانسیسی پولیس نے رسالے کے دفتر پر حملہ کرنے والے تین افراد کی شناخت کرلی تھی۔

پولیس ذرائع کے مطابق حملہ آور، جن میں سے دو آپس میں بھائی ہیں، یمن کے ایک دہشت گرد نیٹ ورک سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ حملہ کے گواہوں کے مطابق ان مین سے ایک نے یمن میں القاعدہ سے بیعت کا دعویٰ کیا تھا۔

پولیس افسران نے نام طاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملہ آوروں میں سے فرانس سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کا نام کوآشی اور شیرف کوآشی ہے، جو لگ بھگ تیس برس کے ہیں جبکہ تیسرے حملہ آور 18 سالہ حمید مراد کی قومیت کی شناخت نہیں ہوسکی۔

شیرف کوآشی پر 2008 میں عراق میں عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے پر فرد جرم عائد کر کے 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سال 2008 میں اپنے کیس کی سماعت کے دوران شیرف نے عدالت کو بتایا کہ وہ ٹی وی پر امریکی ابو غریب جیل میں عراقی قیدیوں کے ساتھ پُرتشدد سلوک کی تصاویر دیکھ کر غم وغصے کا شکار ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک مزاحیہ سیاسی رسالے کے دفتر میں فائرنگ کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور دس زخمی ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں:پیرس: سیاسی رسالے کے دفتر پر حملہ، 12 ہلاک

چارلی ہیبدو نامی رسالے نے 2011 میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکے اپنے سرورق پر شائع کیے تھے جس کے بعد اس کے دفتر پر فائربموں کے ذریعے حملہ بھی کیا گیا تھا جب کہ گذشتہ ہفتے اس میگزین نے داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حوالے سے ٹوئٹ کی تھی۔

اس حملے میں دیگر 10 افراد زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے چار یا پانچ افراد کی حالت تشویشناک بتائی گئی تھی۔

ایک عینی شاہد بینوٹ برینگر نے مقامی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس نے دو نقاب پوش افراد کو کلاشنکوف رائفلز کے ساتھ عمارت میں جاتے ہوئے دیکھا جس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔

زخمیوں میں چار مشہور کارٹونسٹ سمیت رسالے کے ایڈیٹر انچیف اسٹیفنی چاربونیئر بھی شامل ہیں، جو قتل کی دھمکیاں ملنے کے بعد کئی سال تک پولیس کی حفاظت میں رہے تھے۔

فرانسیسی پولیس کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد مسلح افراد ایک کار پر سوار ہو کر پیرس کے شمالی حصے کی جانب فرار ہوئے ۔

پولیس افسر روکو کونٹینٹو کے مطابق حملہ آوروں کی جانب سے کسی اور مقام پر حملے کے امکان کے باعث سکیورٹی کو بڑھا دیا گیا۔

کسی بھی گروپ یا تنظیم کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تاہم القاعدہ کی یمنی شاخ کے ٹوئٹر استعمال کرنے والے ایک رکن نے خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ گروپ اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا تاہم انھوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہوگی۔

امریکا سمیت مختلف یورپی ممالک میں فرانس میں ہونے والے اس حملے کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں