jasta jasta kuch khasta 670
چونکہ یہ مملکت خداداد ہے، چنانچہ یہاں اپنی تمام احمقانہ کارگزاریوں کے ہولناک نتائج کو باآسانی خدا اور اُس کی بنائی ہوئی قسمت کے کھاتوں میں ڈالا جاسکتا ہے۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

شہنشاہِ ظرافت دلاور فگار مرحوم کا ایک شعر ہے:

لے کر برات کون سپر ہائی وے پر جائے ایسی بھی کیا خوشی کہ سڑک پر وصال ہو

دلاور فگار تو پندرہ سال قبل انتقال کرگئے تھے، اگر آج بقید حیات ہوتے تو اپنے شہر کی شاہراہوں کو دیکھ کر سپر ہائی کو دیا گیا الزام واپس لے لیتے۔ اس لیے کہ ہمارے شہروں کی چھوٹی بڑی ہر ایک سڑک اس درجے کو پہنچ چکی ہے کہ کسی کو بھی کہیں بھی زندگی کے عذاب سے نجات دلا کر جاں بحق کرسکتی ہے۔

ہماری سڑکوں پر موت کو گلے سے لگانے کے لیے ہر ایک بے چین دکھائی دیتا ہے، اگر خود اپنے لیے یہ بےچینی نہیں ہوتی تو کم ازکم اکثر کی تمام تر تگ و دو دوسروں کو موت کے منہ میں پہچانے کے لیے تو ضرور ہوتی ہے۔

اس کی اور بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری درسی کتابوں سے لے کر وعظ کی تمام مجلسوں میں یہی تلقین کی جاتی ہے کہ موت کو زندگی پر فوقیت دینی چاہئیے۔ چنانچہ مرنے کے بعد جنت کے حصول کے لیے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے معاشرے کو ہی جہنم کا شاندار نمونہ بنادیا ہے۔

جب سے شادی ہالوں کا رواج شروع ہوا ہے، اس وقت سے سڑکوں پر تمبو لگا کر شادی کا سلسلہ تو کم سے کم ہوگیا ہے، لیکن میلاد، مجلس، مایوں، مہندی اور سالگرہ وغیرہ کی قسم کی تقاریب اب بھی سڑک پر ہی منعقد کی جاتی ہیں۔ تمبو کو باندھنے کے لیے لوہےکی بڑی بڑی کیلیں سڑک پر گاڑی جاتی ہیں، اس سے سڑک تو زخمی ہوتی ہی ہے، راہ چلتےلوگ بھی ٹکرا کر زخمی ہوجاتے ہیں، اور اگر کوئی موٹر سائیکل سوار کی نظر تیزرفتاری میں ان پر نہ پڑے تو اس کے لیے فوتگی کے کنارے تک پہنچنے کے مراحل شروع ہو سکتے ہیں۔

اور چونکہ یہ مملکت خداداد ہے، چنانچہ یہاں اپنی تمام احمقانہ کارگزاریوں کے ہولناک نتائج کو باآسانی خدا اور اُس کی بنائی ہوئی قسمت کے کھاتوں میں ڈالا جاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر سڑک پر آتے جاتے سب کو دکھائی دے رہا ہوگا کہ سیوریج کے مین ہول کا ڈھکن غائب ہے، لیکن کانوں کو تو چھوڑیے، کہیں اور بھی جُوں تو کیا کچھ بھی نہیں رینگے گا۔ کسی کو اگر کچھ فکر ہوگی بھی تو وہ زیادہ سے زیادہ اس مین ہول میں کسی درخت کی شاخ لاکر ڈال دے گا۔

اللہ اللہ خیر صلّا....!

اور اگر کوئی بچہ ایسے کسی گٹر میں گر کر ڈوب جائے، یا کوئی موٹر سائیکل سوار کی بائیک اس گٹر سے ٹکرا کر اُچھلنے کے بعد دور تک رگڑتی چلی جائے اور نتیجہ میں وہ بچہ یا موٹر سائیکل سوار ہلاک ہوجائے تو کوئی یہ سبق ہرگز نہیں سیکھے گا کہ آئندہ کوئی گٹر بغیر ڈھکن کے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بڑے اطمینان اور سکون قلب کے ساتھ داڑھی یا اور کچھ کھجاتے ہوئے فرمادیا جائے گا کہ ....اللہ کی مرضی! اللہ کی دی ہوئی چیز تھی اللہ نے واپس لے لی!

ٹریفک حادثات سے محفوظ رہ جانے والوں کے لیے موت کے حصول کےاور بہت سے انتظامات کیے گئے ہیں۔ نامعلوم افراد کی نامعلوم سمت سے آنے والی گولی سے بھی یہ نعمت غیر مترقبہ حاصل ہوسکتی ہے۔ اب تو ایک اور سہولت یہ بھی بہم پہنچادی گئی ہے کہ ہر گاڑی میں سی این جی سیلنڈر نصب ہیں، جو اگر پھٹ جائیں تو بم کا کام کرتے ہیں اور ایک ہی جھٹکے میں بہت سے لوگوں کو زندگی کے عذاب سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ یعنی اب ہماری سڑکوں پر ہزاروں گاڑیاں محض گاڑیا ں نہیں رہیں، بلکہ ان کی صورت میں بم دوڑتے پھر رہے ہیں۔

موت کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے ہماری حکومتیں بھی عوام کی زندگی کو اجیرن بنانا اپنا مذہبی فریضہ اور باعث اجرو ثواب سمجھتی ہیں کہ اگر لوگوں کو اس دنیا میں ہی ساری نعمتیں نصیب ہوگئیں تو پھر وہ اگلی دنیا میں جانے کے لیے بے قرار نہیں ہوں گے۔

چنانچہ مملکت خداداد میں رزق کو اتنا گرانقدر بنادیا گیا ہے کہ ہر ایک شہادت کی تمنا اور جستجو کرنے پر مجبور ہوجائے۔ دراصل شہیدوں کو مرنے کے بعد بھی رزق ملتا ہے، اس لیے شہادت کے مزے لوٹنےاور مفت خدائی رزق حاصل کرنے کے لیے بہت سے لوگ باآسانی آمادہ ہوجاتے ہیں۔

جو لوگ ازخود شہادت جیسی انمول نعمت سے فیضیاب ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے، تو ان کو زبردستی شہادت سے سرفراز کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے عموماً جمعہ شریف کے مبارک دن اور مسجد میں نماز کے وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے، کہ اس طرح شہادت کی برکتوں میں مزید اضافہ ہو جائے۔

مملکت خداداد میں عوام کی اکثریت کو نہ روٹی میسر ہے نہ کپڑا اور نہ ہی مکان! ظاہر ہے کہ یہ اہتمام بھی جان بوجھ کر کیا گیا ہے، کہ لوگ اس عارضی اور چند روزہ زندگی میں ناپائیدار وسائل کی کشش میں کھو نہ جائیں۔ کافروں نے اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور آخرت کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ توبہ توبہ! سنا ہے کہ وہاں کےسائنسدان انسانوں کی عمر میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہزار سال بلکہ اس سے بھی اوپر لےجانا چاہتے ہیں۔

ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے! کم از کم مملکت خداداد میں تو ہرگز نہیں! یہ الگ بات ہے کہ ہمارے قبلہ و کعبہ اور دارالحاجات مملکت السعودیہ العربیہ میں تو شیخوں کی عمریں اچھی خاصی ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں تو بادشاہت کے منتظر ولی عہدوں کی عمریں بھی اسّی برس سے تجاوز کرچکی ہیں۔ لیکن ہم ان کو کیوں دیکھیں کہ وہ کیا کررہے ہیں؟ ہاں ہم ان کے ریال کو ضرور دیکھتے ہیں اور ان سے زکوٰۃ و خیرات لے کر اپنی مملکتِ خداداد میں موت کے ہی کاروبار کو فروغ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے مذہب کا کچھ ایسا ٹینڈر بھر دیا تھا جو سعودی مملکت والوں نے نہیں بھرا تھا، چنانچہ ہمیں خصوصی طور پر مذہب کا ٹھیکے دار بنادیا گیا ہے۔

ہم نے مملکت خداداد میں اسلام کو قلعہ بند کردیا ہے کہ اسلام کو یہاں شدید خطرہ لاحق رہتا ہے۔ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں بھی اسلام کو اس قدر سنگین خطرات لاحق نہیں ہوتے جیسے کہ ہمارے ہاں یہ خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔

اس معاملے میں ہمارے ہاں لوگ اتنے حساس ہوگئے ہیں کہ صرف اتنا کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ یا فلاں شخص نے مذہب کی توہین کی ہے۔ بس پھر دیکھتے ہی دیکھتے مشتعل ہجوم اس کو مکوں اور لاتوں سے ہی کوٹ پیٹ کر جہنم رسید کردیتا ہے۔ اس رویے سے بہت سے لوگوں کے لیے خاصی آسانیاں بھی فراہم ہوگئی ہیں۔ وہ جائیداد ہتھیانے، اپنے کسی کاروباری حریف کو راستے سے ہٹانے، کسی رقیب روسیاہ سے اپنی یکطرفہ محبت کو آزاد کرانے، جنسی زیادتی کے بعد اپنا دامن صاف کرنے یا پھر کسی سیاسی مدمقابل کا پتہ صاف کرنے کے لیے اس تیر بہ ہدف نسخے کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

تبصرے (7) بند ہیں

karenmcfly Jun 15, 2013 11:27am
Reblogged this on Ice-cream in Pakistan and commented: I don't understand the article, but that's some interesting collage :D
Ejaz Butt Jun 15, 2013 12:01pm
Very well written Jamil Khan. You have rightfully identified the problems and suggested solutions at the sane time. You have wonderfully pointed out the misuse and abuse of the blasphemous attitudes and laws.
Anwar Ahmad Jun 15, 2013 03:02pm
جزاک اللہ جمیل صاحب. ہمارے بدبودار رستے ہوئے ناسوروں کو اس ہلکے پھلکے انداز میں بے نقاب کرنے کا شکریہ. کاش کہ ہم ان کا کچھ علاج کر سکتےلیکن اس کے بجائے اب ہم نے ان ناسوروں کو مزید پالنا ہی باعث اعزاز و نجات سمجھ لیا ہے.
ابن آدم Jun 15, 2013 08:08pm
اعلیٰ طرز تحریر __ لاجواب انداز میں مجموعی قومی نفسیات کی بھرپور نشاندھی کی گئی ہے ایسا سچ جو کھلی آنکھوں دکھائی دیتا ہے مگر شاید آنکھیں اندھی نہیں جو سینوں میں دل ہیں وہ اندھے ہیں عقل کے اندھوں کو جھنجوڑتی تحریر ! سلامت جمیل خانصاحب!
میاں محسن ضیاء Jun 16, 2013 02:57am
ہر بار بہتریں! بہت خوب جمیل بھائی۔۔۔۔ معاشرتی بے حسی کے چند مناظر ۔۔۔۔۔۔۔
زبیر حسین Jun 16, 2013 06:08pm
"چونکہ یہ مملکت خداداد ہے، چنانچہ یہاں اپنی تمام احمقانہ کارگزاریوں کے ہولناک نتائج کو باآسانی خدا اور اُس کی بنائی ہوئی قسمت کے کھاتوں میں ڈالا جاسکتا ہے۔" بالکل درست فرمایا، جمیل خان صاحب. پاکستان میں بسنے والوں کا یہی تو المیہ ہے. وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے مسائل ان کی اپنی احمقانہ اور جاہلانہ کارگزاریوں کا نتیجہ ہیں. اگر انہیں اپنی حماقتوں اور بدمعاشیوں کے نتائج کو خدا کے کھاتے میں ڈالنے میں مشکل پیش آئے تو وہ انہیں ہندوؤں، یہودیوں، اور امریکیوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں. نیز ملک و قوم کی بہتری اور ترقی کے لیے سوچ بچار اور اقدامات کرنے کی بجائے وہ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے، دہلی کے لال قلعے پر پاکستان کا پرچم لہرانے، اور واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس کو سفید مسجد میں تبدیل کرنے کے خیالی پلاؤ پکانے میں مصروف رہتے ہیں. ہم اتنے احمق ہو چکے ہیں کہ چین جیسے بااعتماد دوست کی نصحیت بھی قبول نہیں کرتے. چینیوں نے ماضی کو بھول جانے، دشمنوں کو معاف کرنے، اور دنیا کے ہر ملک سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی نہایت شاندار مثال قائم کی ہے. لیکن ہماری نظروں میں چینی "کافر" ہیں اور کافر کی تقلید جائز نہیں. لھذا ہم گھاس پھوس کھا لیں گے مگر چینیوں کی تقلید کرتے ہوئے امن، ترقی، اور خوشحالی کی شاہراہ پر سفر ہرگز نہیں کریں گے.
Nasir Jun 17, 2013 11:07pm
Great well written sir but yaha koi fiyda nae jb tak tasveer ka dosray rukh ko dikha or us say sabak na sika jaey.