اسلام آباد: سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے معاملے پر ہم آہنگی پیدا ہونے کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان بظاہر برف پگھلتی محسوس ہورہی ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ایک دوراہے پر کھڑے یہ سوچ رہے ہیں کہ آیا وہ اپنے حکومت مخالف مؤقف پر قائم رہیں یا پھر اپنی پارٹی کے ان لوگوں کے ساتھ چل پڑیں جو قومی اسمبلی میں واپس جانا چاہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے تک پی ٹی آئی کے سربراہ نے ایک مرتبہ تو متحدہ عرب امارات میں خیبرپختونخوا کے سرمایہ کاروں کی کانفرنس میں اور بعد میں ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں پیش گوئی کی تھی کہ آئندہ عام انتخابات 2015ء میں منعقد ہوں گے۔ یہ مؤقف ان کے متعدد بار کیے گئے دعوے کی بنیاد پر تھا، کہ موجودہ حکومت انتخابی دھاندلی سے اقتدار میں آئی تھی لہٰذا اس کو جانا ہوگا۔

تاہم پارٹی کے دیگر رہنما جو حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں، اگر حکومت اوپن بیلیٹنگ کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات کے انعقاد کے لیے بائیسویں ترمیم پیش کرتی ہے تو انہوں نے مبینہ طور پر قومی اسمبلی میں واپسی کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔

اس بات کے اشارے بھی ملے ہیں کہ حکومت پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی انکوائری کمیشن کی تشکیل پر غور کرسکتی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال اگست میں پی ٹی آئی کی احتجاجی مہم کی انتہا پر پارٹی نے قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے پیش کردیے تھے۔

پس منظر میں جاری مباحثوں کے بارے میں پی ٹی آئی کے ایک سے زیادہ ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کی اکثریت، خاص طور پر قومی اسمبلی کے اراکین پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں واپسی کے لیے بے چینی کے ساتھ دلائل دیتے ہوئے سنے گئے تھے۔

پی ٹی آئی کے ایک اہم قانون ساز نے ڈان کو بتایا ’’گزشتہ مہینے پی ٹی آئی نے ایک سنہری موقع گنوا دیا تھا، جب اس نے فوجی عدالتوں کی تشکیل کے لیے اکیسویں ترمیم کی حمایت کی تھی، لیکن اس نئے قانون کے لیے ووٹ دینے قومی اسمبلی نہیں گئے۔‘‘

اب حکومت نے بائیسویں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی تجویز درحقیقت پی ٹی آئی نے دی تھی۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں اسمبلی میں واپس جانے اور تبدیلی کے ووٹ دینے میں سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

گزشتہ جمعہ پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کے ایک اجلاس کے بعد پی ٹی آئی کے قانون ساز ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی ذاتی حیثیت میں ایوان میں واپسی کے خیال اور اس ترمیم کے لیے ووٹ دینے کی حمایت کی تھی۔

پی ٹی آئی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی نے آن ریکارڈ بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے ڈان کو بتایا ’’اب اب جبکہ ہم نے پارلیمنٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا ہے، جس کا ثبوت کے پی سے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ہے، تو پھر قومی اسمبلی میں بیٹھنے میں کیا برائی ہے، اس لیے کہ پارلیمنٹ دونوں ایوانوں پر مشتمل ہے۔‘‘

تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہی پارٹی کے ایسے رہنما جو پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں، قومی اسمبلی میں اس وقت تک واپسی کی مخالفت کرتے ہیں، جب تک کہ گزشتہ عام انتخابات کی تحقیقات کے لیے حکومت ایک بااختیار عدالتی کمیشن قائم نہیں کردیتی ۔

پی ٹی آئی کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا ’’اب یہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے فیصلے پر منحصر ہے کہ اگر پارٹی اسی ایوان میں واپس جارہی ہے، گزشتہ سال اگست میں جس کی انہوں نے تحقیر کی تھی۔‘‘

سیاسی تجزیہ کاروں کا لگتا ہے کہ حکومت سے اپنی مرضی کا ایک عدالتی کمیشن قائم کروانے میں ناکامی کے بعد اور بظاہر انتخابی ٹریبیونلز سے پارٹی کی توقعات کے برعکس نتائج حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے اندر بہت سے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں مرکز، پنجاب اور سندھ میں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں واپس چلے جانا چاہیے۔

پی ٹی آئی کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے ڈان کو بتایا کہ اگر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے پی میں سینیٹ کے انتخابات کے لیے ہاتھ ملا لیتی ہے تو اس سے یہ امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں پارٹی کے قانون ساز پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔

اس کے علاوہ پارٹی نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عدالتی کمیشن پر اپنے مؤقف میں بھی نرمی کی ہے۔ اصطلاحات کے پچھلے ریفرنس کو واپس لیتے ہوئے، پارٹی نے اب آئین کے آرٹیکل 218(III) کے فریم ورک میں کمیشن کی تشکیل کی تجویز دی ہے۔

اس آرٹیکل میں درج ہے کہ ’’الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ انتخابی عمل کو منظم کرے اور انتخابات کے ایماندارانہ، دیانتدارانہ، شفاف اور قانون کے مطابق انعقاد کے لیے ضروری انتظامات کو یقینی بنائے، اور بدعنوانی کو روکے۔‘‘

ڈاکٹر عارف علوی نے ڈان کو بتایا ’’پچھلے جمعہ اسحاق ڈار کے ساتھ ایک ملاقات میں ایسا لگتا تھا کہ حکومت ہماری نئی تجویز کے مطابق عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے آمادہ تھی، جس کے بعد پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپس لوٹنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘

شوکاز نوٹس:

اتوار کو پی ٹی آئی نے پی کے-3 سے رکن صوبائی اسمبلی جاوید نسیم کو کے پی سے سینیٹ کے لیے پی ٹی آئی سے باہر کے ایک امیدوار کی حمایت کرنے پر شوکاز نوٹس دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک باضابطہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آرڈر 2002 کے سیکشن سات اور پی ٹی آئی کے آئین کے تحت جاوید نسیم کو چوبیس گھنٹے کے اندر جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے، جس میں ناکامی پر انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں