شاکر شجاع آبادی، جنہیں نظرانداز کردیا گیا

07 مارچ 2015
سرائیکی زبان کے اس شاعر کو احترام اور مناسب علاج کی ضرورت ہے، نہ کہ جھوٹے وعدوں کی جن کے خلاف وہ ساری زندگی لکھتے رہے۔ —. فائل فوٹو
سرائیکی زبان کے اس شاعر کو احترام اور مناسب علاج کی ضرورت ہے، نہ کہ جھوٹے وعدوں کی جن کے خلاف وہ ساری زندگی لکھتے رہے۔ —. فائل فوٹو

لاہور: ان کی شاعری روح کو بے قرار کردیتی ہے اور ان کا نام ایک بڑے ہجوم کو مشاعروں میں کھینچ لاتا ہے۔ اگرچہ وہ بولنے اور چلنے پھر نے میں معذوری کا شکار ہیں، ان کی ہر ایک لائن پر حاضرین جوش میں آجاتے ہیں اور تالیاں بجا کر ان کی تعریف کرتے ہیں۔

ان دنوں وہ لاہور جنرل ہسپتال میں نیورو سرجری کے لیے داخل ہیں۔

سرائیکی زبان کے سب سے زیادہ مقبول شاعر شاکر شجاع آبادی جن کی وجہ سے مشاعروں میں لوگوں کی بڑی تعداد کھنچی چلی آتی ہے، اس ہسپتال کے ایک گندے سے کمرے میں اپنے بیٹے نوید شاکر کے ہمراہ پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے کچھ دوست ان کے علاج کے اخراجات برداشت کررہے ہیں۔

اگر شاکر کچھ بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو نوید فوری طور پر ان کے سامنے بیٹھے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ان کے والد کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اگر نوید جو کہتے ہیں وہ درست ہوتا ہے تو شاکر اپنا سر ہلا کر اس کی تائید کردیتے ہیں۔ دوسری صورت میں وہ ایک کاغذ اور قلم اُٹھا کر اپنا مدعا اپنے الفاظ میں تحریر کرکے پیش کردیتے ہیں۔

شاکر شجاع آبادی، جن کا اصل نام محمد شفیع ہے، انہوں نے چھٹی جماعت سے پڑھائی چھوڑدی تھی، اور گائیگی شروع کردی، اس لیے کہ وہ اپنی صلاحتیوں کو منوانا چاہتے تھے۔ تاہم وہ گائیکی کے شعبے میں جگہ نہیں بناسکے اور جلد ہی اس کو چھوڑ دیا۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ ردیف اور قافیہ بندی کی خوبصورت روانی کے ساتھ شاعری کرسکتے ہیں، تب انہوں نے اپنے اندر کا شاعر دریافت کیا۔

انہیں بہت مبہم سا یاد ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ 1986ء میں ریڈیو پاکستان ملتان کے مشاعرے میں اپنے اشعار پڑھے تھے، لیکن وہ 1989ء کے دوران بہالپور میں جھوک سرائیکی کی جانب سے منعقدہ مشاعرے میں اپنی ناقابلِ فراموش کارکردگی کو نہیں بھلاسکے، جو ان کے ذہن میں اب بھی روشن ہے۔

شاکر شجاع آبادی مسکراتے ہوئے بتارہے تھے ’’میں اس وقت پچیس یا چھبیس برس کا نوجوان تھا۔ جس طرح ایک نوجوان کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح مجھے ڈائس پر پہلے بلایا گیا، جبکہ جانباز جتوئی، پُرفیض، پُرسوز جیسے بڑے ناموں اور دیگر کو مشاعرے کے آخر میں وقت دیا جاتا تھا تاکہ ہجوم برقرار رہے۔‘‘

’’جب میں نے لحن کے ساتھ اپنے اشعار پڑھنا شروع کیے تو مشاعرے کے حاضرین جوش کے ساتھ میرا خیرمقدم کیا۔ جب میں نے اپنے اشعار ختم کیے تو جانباز جتوئی اسٹیج پر آئے اور اعلان کیا کہ مشاعرہ ختم ہوگیا ہے۔ (اس کا مطلب تھا کہ شاکر کے بعد پڑھنے کے لیے کچھ نہیں باقی بچا ہے۔)‘‘

ان کے اشعار میں سے یہ اشعار تو بعد میں کلاسک کا درجہ حاصل کرگئے:

کہیں کو ناز اداواں دا

کہیں کو ناز وفاواں دا

اساں پیلے پتر درختاں دے

ساکو رہیندے خوف ہواواں دا

(یعنی کہ کچھ اپنے انداز کا لطف لیتے ہیں، کچھ کو اپنی وفاداری پر فخر ہوتا ہے، ہم درختوں کے زرد پتے ہیں، ہم ہمیشہ ہواؤں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔)

اس مشاعرے کے بعد شاکر نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنی زندگی سرائیکی شاعری کے لیے وقف کردی، جس میں انہوں نے معاشرے کے مظلوم طبقات اور محبت کرنے والوں کی تنہائی پر بات کی۔

1991ء میں بہاولپور میں منعقدہ عالمی اردو مشاعرہ اور ادبی کانفرنس میں ایک ناظر کے طور پر شرکت کے لیے گئے۔

جب حاضرین کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے ان کے نام کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ اسٹیج سیکریٹری نے انہیں چند منٹ کے لیے ڈائس پر مدعو کیا۔ ان کے اشعار دوبارہ اس دن زبان زدِعام ہوگئے۔ ہندوستان، کینیڈا اور امریکا سے آئے ہوئے شاعروں نے شاکر کو سرائیکی زبان کا ایک عظیم شاعر قرار دیا۔

ان کی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کے ساتھ ہی ان کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ پبلشروں نے ان کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں شایع کیں، لیکن شاذونادر ہی انہیں رائیلٹی کی ادائیگی کی گئی۔

ان کی مقبول کتابوں میں لہو دا عرق، پیلے پتر، بلدین ہنجو، منافقاں تو خدا بچاوے، روسیں تو ڈھاڑیں مار مار کے اور گلاب سارے تمہیں مبارک شامل ہیں۔

2004ء میں وہ اسٹروک کا شکار ہوگئے، جس نے ان کی بات چیت اور جسمانی نقل و حرکت کو شدید متاثر کیا۔ 2007ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا گیا۔

شعرو شاعری کے چوبیس برسوں کے دوران شاکر نے ہزاروں دوہرے، قطعے، گیت اور غزلیں لکھیں۔ کافی اور نظم کی کلاسیکی قسم نے انہیں زیادہ متاثر نہیں کیا۔

وہ کہتے ہیں ’’کافی بات چیت کا ایک سادہ انداز ہے، جبکہ نظم ایک بات چیت بھی نہیں ہے۔ میرے نکتہ نظر کے مطابق ایک غزل کے ایک مصرعے میں آپ پوری کائنات کا احاطہ کرسکتے ہیں۔‘‘

یہ عوامی شاعر بارہ برسوں سے چلنے پھرنے سے قاصر ہے تاہم یہ نڈھال نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ اپنی پیدائش سے ہی چلنے پھرنے میں خرابی کا شکار تھے۔

انہیں سر اور گردن کی حرکت میں دشواری کا سامنا ہے۔ میڈیکل بورڈ کی ایک رپورٹ کا انتظار ہے۔ ان کے بیٹے نوید کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے والد کے بیرون ملک علاج کا انتظام کرے۔

نوید کہتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی زندگی شاعری کے لیے وقف کردی۔ ان کے دوہرے سرائیکی خطے میں گھرگھر عام ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر انہیں تسلیم کیے جانے کا یہ رویہ کبھی مالی راحت کا سبب نہیں بنا۔

فروری 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے شاکر کے لیے ایک ملازمت، ماہانہ وظیفے اور ایک گھر کا اعلان کیا تھا۔

اس وعدے پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ بعد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ان کے لیے پچیس ہزار روپے کے ماہوار وظیفے کا اعلان کیا، لیکن اس کی ادائیگی صرف ایک مرتبہ اس جنوری میں کی گئی۔

دو مہینے پہلے ہائی کورٹ نے ان کی بیماری اور غربت زدہ زندگی کا نوٹس لیتے ہوئے شجاع آباد کے حکام سے ایک رپورٹ طلب کی تھی۔ عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے انہیں ایک مرتبہ نشتر میڈیکل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’’میرے والد بیمار ہیں۔ انہیں احترام اور مناسب علاج کی ضرورت ہے، نہ کہ جھوٹے وعدوں کی جن کے خلاف وہ ساری زندگی لکھتے رہے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

مصطفیٰ مہاروی Mar 07, 2015 10:38pm
آاااااااااااااااااااااااااااااااااااااہ افسوس
.Salim Haidrani Dr Mar 08, 2015 01:43pm
The Pakistani elite and the Siraiki landowner houses never respected writers,artists and intellectuals. Poets today in the 21st century are more respectable than Scientists and Technologists because poets bring the message of peace and tolerance in in our societies. Nasir Kazmi in Lahore and Shakir in The Siraiki Region are the symbol of resistance against dark forces, corruption and greed. I hope somebody somewhere would come and support Shakir.