چوکرز کون؟ جنوبی افریقہ یا نیوزی لینڈ

23 مارچ 2015
ٹرینٹ بولٹ 19 وکٹوں کے ساتھ اس وقت ورلڈ کپ کے سب سے کامیاب باؤلر ہیں اور اب ان کی نظریں جنوبی افریقی بیٹنگ لائن کی کمزوریوں پر مرکوز ہیں۔ فائل فوٹو اے پی
ٹرینٹ بولٹ 19 وکٹوں کے ساتھ اس وقت ورلڈ کپ کے سب سے کامیاب باؤلر ہیں اور اب ان کی نظریں جنوبی افریقی بیٹنگ لائن کی کمزوریوں پر مرکوز ہیں۔ فائل فوٹو اے پی
عمران طاہر  15 وکٹوں کے ساتھ جنوبی افریقہ کے سب سے کامیاب بلے باز ہیں اور سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو ان سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ فائل فوٹو اے پی
عمران طاہر 15 وکٹوں کے ساتھ جنوبی افریقہ کے سب سے کامیاب بلے باز ہیں اور سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو ان سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ فائل فوٹو اے پی

آکلینڈ: نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کل پہلے سیمی فائنل میں مدمقابل ہوں گے اور دونوں ہی ٹیمیں فتح کے ساتھ ورلڈ کپ کی تاریخ کا پہلا فائنل کھیلنے کے لیے پرعزم ہیں۔

کرکٹ ورلڈ کپ میں دونوں ہی ٹیمیں متعدد بار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں لیکن صرف جنوبی افریقہ ہی نہیں بلکہ اس معاملے میں نیوزی لینڈ بھی 'چوکرز' ہیں کیونکہ وہ آج تک فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکی ہے۔

ریکارڈ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے ورلڈکپ میں کیویز، پروٹیز سے بڑے چوکرز ثابت ہوئے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم اب تک چھ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ چکی ہے لیکن ایک مرتبہ بھی قسمت نے یاوری نہ کی۔

انہوں نے 1975، 1979، 1992، 1999، 2007 اور 2011 کے سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا لیکن تمام مواقع پر ان کی پیش قدمی کو فل اسٹاپ لگ گیا۔

1975 میں ویسٹ انڈیز، 1979 میں انگلینڈ، 1992 اور 1999 میں پاکستان جبکہ 2007 اور 2011 میں سری لنکا نے نیوزی لینڈ کے سپنے چور کر دیے۔

تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے لگاتار تیسری مرتبہ سیمی فائنل کھیل رہی اور اسے ورلڈ کپ کے سابقہ مقابلے میں جنوبی افریقہ کے خلاف فتح کی وجہ سے حریف پر برتری حاصل ہے۔

نیوزی لینڈ نے 2011 ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کو شکست دیتے ہوئے سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

دوسری جانب جنوبی افریقہ کی ٹیم کو بھی فائنل کھیلنے کا چیلنج درپیش ہے کیونکہ وہ بھی تین سیمی فائنل کھیلنے کے باوجود آج تک فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکے۔

1992 میں انگلینڈ کے ہاتھوں ڈرک ورتھ لوئس قانون کے باعث انہیں غیر متوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا تو 1999 میں سیمی فائنل میں بھی بدقسمتی نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا اور میچ ٹائی ہونے کے باعث آسٹریلیا کو بہتر ریکارڈ پر فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

2007 میں جنوبی افریقہ کی ٹیم تیسری مرتبہ سیمی فائنل میں پہنچی لیکن اس مرتبہ بھی آسٹریلیا نے پروٹیز کی پیش قدمی کو روکتے ہوئے انہیں شکست دے کر ایونٹ سے باہر کیا۔

لیکن اس مرتبہ جنوبی افریقہ نے کوارٹر فائنل مقابلے میں سری لنکا کو شکست دے کر کوالیفائر مقابلوں میں شکست کے منفی ریکارڈ سے جان چھڑائی اور اپنے خطرناک عزائم ظاہر کیے۔

تقابلی جائزہ لیا جائے تو دونوں ہی ٹیمیں برابر نظر آتی ہیں لیکن ہوم گراؤنڈ اور مسلسل نو فتوحات کے ساتھ نیوزی لینڈ کو واضح برتری حاصل ہے۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم اب تک ورلڈ کپ میں ناقابل شکست ہے اور مارٹن گپٹل سے لے کر ٹرینٹ بولٹ تک تمام ہی کھلاڑیوں نے اپنی ٹیم کی فتوحات میں قابل ذکر کردار ادا کیا۔

دوسری جانب جنوبی افریقہ کی ٹیم کو گروپ مرحلے میں ہندوستان اور پاکستان کے خلاف میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اسپنر طاہر کے علاوہ ابھی تک ان کی باؤلنگ بھی کچھ خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے۔

لیکن فائنل میں پہنچنے کے لیے دونوں ہی ٹیموں کا دارومدار ایک بار پھر اپنے قائدین پر ہو گا جہاں برینڈن میک کولم اور اے بی ڈی ویلیئرز اب تک متعدد میچوں میں اپنی دھواں دھار بلے بازی کی بدولت ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرا چکے ہیں۔

بہرحال نتیجہ چاہے جو بھی لیکن ممکنہ طور پر شائقین کرکٹ کو ایک بہترین سیمی فائنل مقابلہ دیکھنے کو ملے گا جس میں فاتح ٹیم تاریخ رقم کرتے ہوئے پہلی مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کر لے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

جہانزیب Mar 24, 2015 12:56am
1992 میں ڈک ورتھ قانون ہوتا ہی نہیں تھا، ساؤتھ افریقہ کوئی اچھا قانون نہ ہونے کی وجہ سے ہی وہ سیمی فائنل ہارا تھا