کراچی ائیرپورٹ حملے کے ایک سال بعد

07 جون 2015
آٹھ جون 2014 کو کراچی ائیرپورٹ پر حملے میں کولڈ روم میں پھنس کر ہلاک ہونے والے ورکرز میں سے ایک عنایت اللہ — وائٹ اسٹار فوٹو
آٹھ جون 2014 کو کراچی ائیرپورٹ پر حملے میں کولڈ روم میں پھنس کر ہلاک ہونے والے ورکرز میں سے ایک عنایت اللہ — وائٹ اسٹار فوٹو

ایک وجہ ہے جس کے باعث مسز صفدر خان کو اب تک 8 جون اور 21 نومبر 2014 کی تاریخیں یاد ہیں۔

پہلی تاریخ تو وہ ہے جب ان کی زندگی اس وقت منتشر ہوگئی جب ان کے بڑے بیٹے عنایت اللہ دیگر 6 کارگو کمپنی کے ورکرز کے ساتھ پایا گیا جو کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ایک دہشتگردانہ حملے کے 36 گھنٹے بعد ایک کولڈ روم میں میں جلنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسری تاریخ کو یاد رکھنے کی وجہ ان کی گود میں تھی جب انہوں نے ہمیں ملیر کے علاقے کھوکھرا پار ڈھائی نمبر کے غریب علاقے میں واقع اپنے گھر میں خوش آمدید کہتے ہوئے بتایا " یہ میرا چھ ماہ کا پوتا روحان ہے، جو کہ اپنے والد کی موت کے پانچ ماہ بعد پیدا ہوا"۔

انہوں نے بتایا " آٹھ جون نے مجھے لگ بھگ مار ہی دیا تھا اور 21 نومبر نے مجھے جینے کے لیے ایک وجہ دی، وہ 36 گھنٹے کسی قیامت کی طرح تھے"۔

وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں جب وہ، ان کی بہو، چھوٹا بیٹا اور دو ننھی پوتیاں ائیرپورٹ کے باہر دیوانہ وار عنایت اللہ کے بارے میں کوئی خبر سننے کے لیے پھر رہے تھے۔ عنایت اللہ اور گیریز دناتا کے دیگر چھ ملازمین کولڈ روم میں اس وقت پھنس گئے تھے جب عسکریت پسندوں نے ٹرمینل ون پر حملہ کیا۔

لگ بھگ سو ریسکیو اہلکار بشمول فائر فائٹرز نے 36 گھنٹے تک ورکرز کو بچانے کی جنگ لڑی مگر وہ جل کو کوئلہ ہونے والی باقیات کو ہی نکال سکے۔

عنایت اللہ کی شناخت بھی کمپنی کے شناختی کارڈ کے ذریعے ہوئی جو اس نے اپنے گلے میں پہن رکھا تھا۔

ان افراد کی نماز جنازہ اور تدفین کو اب کافی عرصہ ہوگیا مگر متاثرہ خاندانوں کی مشکلات تاحال ختم نہیں ہوسکیں۔

مسز صدار اس وقت مسکرانے لگیں جب ہم نے ان سے پوچھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی زرتلافی ملی، جس کے بارے میں غفلت کے الزامات سامنے آئے تھے کیونکہ ریسکیو ایجنسیاں اور اداروں نے اسی وقت آگے آئے جب ان ورکرز کے خاندانوں کی جانب سے احتجاج اور ایک مرکزی شاہراہ کو بلاک کردیا گیا، جس کے بعد انتظامیہ ان کی بات سننے پر مجبور ہوگئی۔

مسز صفدر نے اشکوں بھری آنکھوں کے ساتھ بتایا " ہمیں معاوضہ صرف میرے بیٹے کی کمپنی کی جانب سے ملا اور وہ بھی کئی ماہ بعد"۔

مسز صفدر اس کرب و تکلیف سے گزرنے والی واحد ہستی نہیں۔ عنایت اللہ کے گھر سے بمشکل آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر لال کوارٹرز نامی علاقے میں اس سانحے کی نذر ہونے والے نبیل احمد کے خاندان کی جانب سے بتائی جانے والی تفصیلات زیادہ دہشتناک ہیں۔

نبیل کی چھوٹی بہن نے بتایا " نو جون کی صبح کے ساڑھے چار بجے تک ہم نبیل بھائی کے ساتھ موبائل فون کے ذریعے رابطے میں تھے"۔

خاتون نے اپنے مرحوم بھائی کی ایک تصویر شیئر کرنے کی ہماری درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا " اگر ان کی کوئی تصویر اخبار میں آئی تو اس سے صرف ہمارے زخم پھر کھل جائیں گے"۔

انہوں نے کہا " ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوا جو اس غفلت کے ذمہ دار تھے، تفتیش، ذمہ داران کے خلاف کارروائی اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ، یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر گھنٹے بعد نیوز بلیٹنز میں حکومتی وزراءکی زبان سے ہم نے سنے مگر چند روز میں ہی سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا"۔

اسالٹ رائفلز، راکٹ لانچرز، دستی بم اور خودکش جیکٹوں سے مسلح کم از کم دس عسکریت پسندون نے گزشتہ سال آٹھ جون کی شب کراچی ائیرپورٹ کے ٹرمینل ون پر حملہ کیا۔

ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس کے کمانڈوز، پی آئی اے کے ملازمین اور سول ایوی ایسوسی ایشن کے عملے سمیت پچیس سے زائد افراد عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان متعدد گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپ کے دوران ہلاک ہوگئے تھے ، جبکہ تمام حملہ آور بھی مارے گئے۔

اس حملے کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھی بھاری نقصان پانچ طیاروں کو نقصان پہنچنے اور دو گوداموں میں برآمدی و درآمدی اشیاءجل کر خاک ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑا۔

محمدعلی اس ساری تباہی کا گواہ ہے، عنایت اللہ اور نبیل کی طرح وہ بھی غلط وقت پر غلط جگہ پر موجود تھا تاہم وہ خوش قسمت ثابت ہوا جو بچ نکلا۔

ملیر کے علاقے غریب آباد کے رہائشی 43 سالہ محمد علی ایک نجی ائیرپورٹ سروس کمپنی کے ڈرائیور ہیں اور وہ بروقت درست ردعمل ظاہر کرنے میں کامیاب رہے اور زندہ بچ نکلے۔

اپنے گھر کے قریب ایک چائے کے اسٹال پر بیٹھ کر محمد علی نے بتایا " جب ہم نے فائرنگ کی آواز سنی تو ہم نے اسے نظرانداز کردیا، مگر جب مسلسل فائرنگ ہوتی رہی تو میں اور میرے ساتھی قائل ہوگئے کہ یہ جگہ محفوظ نہیں اور ہم فوراً ہی باہر کی جانب بھاگے، کسی نے ہمیں بتایا کہ ٹرمینل پر حملہ ہوا ہے، فائرنگ کی شدت بڑھنے کے بعد ہم رینگتے ہوئے محفوظ کی جانب بڑحنے لگے اور آخر کار آدھے گھنٹے کی جدوجہد کے بعد وہاں سے باہر نکل آئے"۔

جس وقت وہ باہر پہنچے تو اس گودام سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے جہاں وہ حملے کے وقت موجود تھے۔ محمد عملی نے اپنی کہنی پر موجود زخموں کے مندمل شدہ نشانات دکھائے جو اب بھی دیکھے جاسکتے تھے " میں اور میرا خاندان اس سانحے کے بعد بہت زیادہ دہشت زدہ ہوگیا تھا، حملے کے بعد سامےن آنے والی صورتحال بھی بہت زیادہ حوصلہ افزاءنہیں، سیکیورٹی کو سخت کیا گیا ہے مگر وہ ائیرپورٹ ورکرز اور وہاں آنے والے افراد کو ہی ہراساں کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے ستمبر میں اپنی ملازمت کو تبدیل کرلیا مگر اب بھی ائیرپورٹ کے علاقے سے گزرتا ہوں تو کپکپانے لگتا ہوں"۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rabia Jamil Jun 08, 2015 01:23pm
واقعی ہم ایک بے حس قوم ہیں ،ہمارے یہاں حادثات آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں ،ان حادثات کو صرف متاثرہ خاندان ہی یاد رکھتا ہے ۔۔۔۔۔