افغانستان: طالبان کا پولیس بیس پر قبضہ

26 جولائ 2015
— فائل فوٹو/ رائٹرز
— فائل فوٹو/ رائٹرز

کابل: افغان سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال مشرقی علاقے میں 3 روزہ جنگ کے بعد 100 سے زائد پولیس اور بارڈر سیکیورٹی اہلکار ہتھیار ڈال کر عسکریت پسندوں سے جا ملے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق صوبہ بدخشاں میں قائم تیرگران کا پولیس بیس کیمپ عسکریت پسندوں کے زیر قبضہ آنے سے افغان فورسز کو درپیش مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکا اور نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان کے دور دراز علاقوں میں قائم سیکیورٹی بیس کیمپس اور چیک پوسٹوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ ان حملوں میں افغان سیکیورٹی اداروں کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

بدخشاں کے صوبائی پولیس چیف جین بابا جان کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں کے باعث ضلع واردوج میں قائم پولیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔

بدخشاں کے صوبائی کونسل کے سربراہ عبداللہ ناجی کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین روز سے جاری لڑائی کے دوران کسی بھی قسم کی امداد نہیں بھیجی گئی جس کے نتیجے میں ان کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں تھا اور انھوں نے طالبان میں شمولیت اختیار کرلی۔

جان کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس کمانڈر نے بھی طالبان میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور بیس پر موجود تمام اسلحہ اور گولہ بارود عسکریت پسندوں کے حوالے کردیا ہے۔

طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے بیس کیمپ پرقبضہ حاصل کرلیا ہے جہاں مقامی بارڈر سیکیورٹی پولیس سربراہ اور مقامی پولیس کمانڈر سمیت 110 پولیس اہلکار موجود تھے، تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا ان پولیس اہلکاروں نے طالبان میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

واضح رہے کہ بیس پر ہونے والا حملہ گذشتہ ماہ ضلع یمگان کی سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر سینکٹروں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد سامنے آیا ہے جہاں پولیس اہلکاروں کو قبضہ چھوڑنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں