ارادہ تو یہی تھا کہ وزیراعظم جناب نواز شریف کے فرمان سے آغاز کیا جائے لیکن نصیبِ دشمناں انہوں نے آج پورے دن میں کچھ نہیں فرمایا، یا ہو سکتا ہے کہ ان کے فرمان تک ہماری رسائی نہ ہو سکی ہو، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راوی نے ان کے ساتھ کسی پرانی دوستی کا حساب چکانے کے لیے ان کے فرمان کو چھپا لیا ہو۔

خیر وجہ کوئی بھی ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی پچھلے کچھ عرصے کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ میاں صاحب کم ہی بولتے ہیں اور اکثر اوقات تبھی بولتے ہیں جب واقعات رونما ہو جاتے ہیں اور ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ کیا بولنا صحت کے لیے کچھ خاص ضرر رساں نہیں ہو گا یعنی وہ آج کل پہلے تولتے ہیں اور بعد میں بولتے ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے فرمایا ہے کہ اب صرف وہی وزیر رہے گا جو کام کرے گا۔ سندھ حکومت کو اب یہ پتہ لگانے کے لالے پڑ گئے ہیں کہ زرداری صاحب کی 'کام' سے آخر مراد کیا ہے؟ یعنی کیا وہ اسی کام کو کام سمجھتے ہیں جو وہ اپنی مدت صدارت کے دوران کرتے رہے ہیں یا کام کی تعریف ان کے نزدیک بدل گئی ہے؟

اس معمہ کو حل کرنے کے لیے امید ہے کہ وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ صاحب کمیٹی بنا دیں گے جو اس بات پر کام کرے گی کہ آج کل زرداری صاحب کام کسے سمجھتے ہیں کیونکہ جو کام جناب زرداری صاحب اپنے پانچ سالہ دور میں کرتے رہے ہیں وہ تو پوری توانائیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اور اگر کوئی اور کام ہے تو اس کا پتہ لگایا جائے اور اس کا طریقہء کار سمجھنے کے لیے وزراء کو تربیتی کورس کے لیے بیرونِ ملک بھیجنے کا بندوبست بھی کیا جائے کہ آخر وزیر رہنا تو امرِ ضروری ہے۔

چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف جناب عمران خان نے فرمایا ہے کہ "بلدیاتی انتخابات میں کسی پارٹی سے اتحاد نہیں کر رہے" اور وہ جو ہماری پنجاب کی سات جماعتوں سے ملاقات ہوئی ہے اس کا مقصد تو ان جماعتوں کے رہنماؤں کو مل بیٹھ کر چائے پینے کا موقع فراہم کرنا تھا۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ ق اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بناء پر اس حالت کو پہنچ چکی ہیں کہ بیچارے چائے کی محفل بھی نہیں سجا سکتے۔ اس افراتفری کے دور میں جب کہ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے کہ کوئی کسی کو پوچھتا نہیں، ہم نے انہیں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا ہے اور اس نیکی کے بدلے کسی صلے کی بھی امید نہیں رکھتے کیونکہ ہم "نیکی کر دریا میں ڈال" والے محاورے پر پورا پورا نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ عمل بھی کرتے ہیں کہ عمل سے زندگی بنتی۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

لاہور ہائی کورٹ نے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین صاحب کی تصاویر، تقاریر اور بیانات پر پابندی لگا دی ہے یعنی کہ ان کی بولتی بند کر دی ہے جس پر فاروق ستار صاحب نے اپنا مؤقف دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ الطاف بھائی کا حقہ پانی تو پہلے سکیورٹی فورسز بند کر چکی ہیں اور طُرّہ یہ کہ لندن پولیس بھی انہں جیل بند کرنے کے بندوبست میں مصروف ہے۔ آپ ہی بتائیں کہ ایسے بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی کو بولنے ہی نہ دیا جائے تو معاملات کیسے حل ہوں گے کیونکہ بقول شاعر

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے

اب آپ ہی کہیں کہ اگر ایک انسان جس کے موقف کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اس کا ہر آدھے گھنٹے بعد بولنا ضروری ہو، اس کی تقاریر پر پابندی لگا دی جائے اور امید بھی دلوں کی الجھنیں ختم ہونے کی رکھی جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔

مشہور و معروف کرکٹر محمد آصف نے کہا ہے کہ جو کھلاڑی ہماری قومی ٹیم میں واپسی کی مخالفت کر رہے ہیں وہ سلیکٹرز نہیں ہیں حالانکہ جو سلیکٹرز ہیں ان کا رویہ بھی ہمارے ساتھ چنداں مختلف نہیں ہے۔ یعنی کہ وہ بھی کر تو مخالفت ہی رہے ہیں لیکن بتا نہیں رہے جس سے ہماری امید بندھی ہوئی ہے اور امید پر ہی تو دنیا قائم ہے آپ تو جانتے ہی ہیں۔

انہوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ ان کھلاڑیوں کو اپنی سلیکشن کی فکر کرنی چاہیے کہ کہانی کے مطابق لالچ بری بلا ہے اور یہ بلا کسی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یعنی بلا نے کون سا کسی سے پوچھ کر اور اس کی مرضی سے نازل ہونا ہوتا ہے یہ تو کسی پر بھی کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے تو ان کھلاڑیوں کو حفظ ما تقدم کے طور پر ٹیم میں ہماری شمولیت کی مخالفت کی بجائے حمایت کرنی چاہیے تاکہ ہاتھ کا دیا برے وقت میں کام آئے۔

خیر یہ تو ہمارا مشورہ ہے۔ اگر موصوف کھلاڑی اسے پلے سے باندھ لیں تو ضرور کسی نہ کسی دن ان کے کام آئے گا ورنہ ہمارا کیا ہے قومی ٹیم میں نہ کھیل سکے تو غیر قومی ٹیم میں کھیل لیں گے کہ بقول شخصے "ٹیم ٹیم ہوتی ہے".


یہ ایک طنزیہ مضمون ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Dr. Agha Sep 16, 2015 10:40am
Ye sarey Bathrooms main beeth kar sochtey hain aur bahir aa kar byan jari kar detey hain. Actually we are living in a fools paradise.
Sharminda Sep 16, 2015 11:43am
Bohat khoob.