انگلینڈ کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی جانب سے ریکارڈ ٹیسٹ رنز بنانے والے یونس خان چاہتے ہیں کہ مستقبل میں کوئی اور پاکستانی بلے باز نہ صرف ان کا یہ ریکارڈ توڑے بلکہ وہ پندرہ ہزار رنز تک سکور کرے۔

منگل کو میچ کے دوسرے دن کھیل ختم ہونے کے بعد یونس نے پریس کانفرنس میں کیرئیر اور سنگ میل کے حوالے سے کافی باتیں کی۔

تاہم ڈان نے ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست رکھی جس میں مڈل آرڈر بلے باز نے سوالوں کے دلچسپ جواب دیے۔

س: یونس آپ اپنی تیس ٹیسٹ سینچریوں میں سے کن تین اننگز کو فیورٹ قرار دیں گے ؟

ج: میں سری لنکا کے خلاف ڈیبیو سینچری کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔پاکستان وہ میچ اچھے مقابلے کے بعد جیت تو نہیں سکا لیکن مشکل حالات میں بنائی گئی سینچری نے جہاں مجھے خود اطمینان دیا وہیں لوگوں کے سامنے بھی سرخرو ہوا۔

اس کے علاوہ مارچ، 2001 میں دورہ نیوزی لینڈ کے دوران آکلینڈ ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بنائے گئے 149رنز بھی یادگار ہیں ۔

پہلی اننگز میں نروس نائنٹینز کا شکار ہونے کے بعد دوسری اننگز میں آکلینڈ کی وکٹ پر 182گیندوں پر 149رنز کو میں نے بھرپور انجوائے کیا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ پاکستان ٹیسٹ جیتنے میں بھی کامیاب ہوا۔

اپنی تیسری فیورٹ اننگز میں حالیہ دورہِ سری لنکا کے پالی کلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 171ناٹ آؤٹ بھی شامل کروں گا ۔

بڑے ہدف کے تعاقب میں سری لنکا کے خلاف اس کی سرزمین پر تین سو پچاس رنز کا ہدف حاصل کرنا بہت دشوار سمجھا جاتا ہے ، لیکن مثبت کھیل کے باعث ہم یہ کارنامہ سر انجام دینے میں کامیاب رہے۔

س: کوئی ایسی اچھی اننگز جہاں آپ تو اچھا کھیلے لیکن ٹیم کے ہارنے کا افسوس ہوا؟

ج: ٹیسٹ کرکٹ میں سینچری بنانے کا اپنا لطف ہے لیکن طویل دورانیے کی کرکٹ میں کامیابی حاصل کرنے سے ہی سینچری یادگار رہتی ہے۔

ناکامی کے بعد سینچری بھی اچھی یادوں میں شامل نہیں رہتی۔ ایسی ہی ایک اننگز اگست 2014کے گال ٹیسٹ کو گردانوں گا جہاں میں نے پہلی اننگز میں 177رنز بنائے لیکن اس ٹیسٹ میں ناکامی نے بہت مایوس کیا تھا۔

س: تین مشکل ترین باؤلرز ؟

ج: مشکل باؤلرز میں سرفہرست سر لنکن متھایا مرلی دھرن کو قرار دوں گا۔اس کے بعد جنوبی افریقہ کے ڈیل اسٹین اور پھر شان پولاک۔

میں میگ گراتھ کے خلاف زیادہ نہیں کھیلا لیکن ان کے خلاف کھیلتے ہوئے پتا چل گیا تھا انہیں کھیلنا آسان نہیں۔

س: کس گراؤنڈ پر کھیل کر سب سے زیادہ انجوائے کیا؟

ج: نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیل کر ہمیشہ لطف اندوز ہوا۔ سری لنکا کے خلاف ٹرپل سینچری بھی اسی میدان پر بنائی، لیکن اس اننگز کو فیورٹ اس لیے شمار نہیں کیا کیونکہ وہ ہائی اسکورنگ ٹیسٹ ڈرا ہوا تھا۔

س: پسندیدہ ٹیسٹ کامیابی؟

ج: حالیہ پالی کیلے ٹیسٹ کے علاوہ آسٹریلیا کے خلاف یو اے ای میں ٹیسٹ سیریز کی کامیابی پر بہت خوشی ہوئی تھی۔ اس سیریز میں اپنی کارکردگی پر بھی فخر ہے۔

س: ہندوستان کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں آپ کی اوسط 88رنز ہے، روایتی حریف کے خلاف اننگز کو کس طرح یاد کرتے ہیں؟

ج:دسمبر، 2007 میں انڈیا کے خلاف ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں بنائی گئی سینچری بھی یادگار ہے۔

انیل کمبلے اور ہربھجن سنگھ کے خلاف ٹیسٹ کے آخری روز میری سینچری نے میچ بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ مارچ، 2005 میں بنگلور ٹیسٹ میں بنائی گئی ڈبل سینچری اور اس میچ میں پاکستان کی کامیابی نے خوشی کے لمحات فراہم کیے جو ہمیشہ یاد رہیں گے ۔

س: پاکستان میں جتنی ٹیسٹ کھیلی ان میں سے کس اننگز میں آپ کو زیادہ خوشی ہوئی؟

ج: 2007 میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو کراچی اور لاہور کے ٹیسٹ میچز میں جنوبی افریقی باؤلنگ کے خلاف بنائی گئی سینچریاں پسند ہیں لیکن اس سیریزمیں پاکستان ٹیم کی ناکامی نے مزہ کرکرا کردیا۔

س: آپ ہمیشہ مرحوم کوچ باب وولمرکو یاد کرتے ہیں۔ اب ٹیسٹ کرکٹ میں قومی ریکارڈ قائم کرنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھیں تو کیا کہیں گے؟

ج: قومی ریکارڈ بنانے کے بعد جن دو شخصیات کو میں نے سب سے زیادہ یاد کیا، ان میں ایک میرے والد اور دوسرے باب وولمر ہیں۔ والد صاحب زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے ۔باب وولمر کو بھی میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

جس وقت میں کیرئیر میں آگے بڑھ رہا تھا انہوں میری بہت رہنمائی کی ۔ان کی کمی آج بھی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ اپنی والدہ کی دعاؤں کی بدولت آج اس مقام پر ہوں۔

س: ریکارڈ بننے کے بعد آپ کا جاوید میانداد سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج: جاوید میانداد جب پاکستان کے کوچ تھے تو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مکمل تیکنیک والے بیٹسمین تھے اور میرے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔

کرکٹ میں ان کے مقام تک پہنچنا مشکل ہے ۔ان کا ریکارڈ تو توڑ دیا لیکن جاوید بھائی ،جاوید بھائی تھے اور ہیں۔

س: آخر میں بتائیے گا کہ کیرئیر کے اختتام سے قبل کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

ج: میری بڑی خواہش ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کیلئے دس ہزار رنز مکمل کرنے والا پہلا بیٹسمین بنوں۔

اس فہرست میں اب تک کوئی پاکستانی شامل نہیں اور میری خواہش ہوگی کہ مستقبل میں کوئی اور پاکستانی نہ صرف میرا ریکارڈ توڑے بلکہ پندرہ ہزار رنز تک جائے تاکہ ٹیسٹ کرکٹ کی رنز بنانے والوں کی فہرست میں پاکستانی سرفہرست بیٹسمینوں میں شامل ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں