پاکستان ہمیشہ افغانستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2015
خطے میں پائیدار امن کے لیے پُرامن افغانستان ناگزیر ہے، وزیر اعظم — ڈان نیوز اسکرین گریب
خطے میں پائیدار امن کے لیے پُرامن افغانستان ناگزیر ہے، وزیر اعظم — ڈان نیوز اسکرین گریب

اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ مضبوط رابطے چاہتا ہے جبکہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے دشمن ہمارے دشمن ہیں۔

اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی نے 5ویں ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسس کانفرنس کا باقاعدہ آغاز کیا۔

ڈان نیوز اسکرین گریب
ڈان نیوز اسکرین گریب

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے عمل کو سراہتا ہے، یہ کانفرنس استنبول کانفرنس کا تسلسل ہے جس کا مقصد خطے میں امن، انسانی اقدار اور علاقائی تعاون کا فروغ ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے پُرامن افغانستان ناگزیر ہے، افغانستان میں بدامنی ہوگی تو پورا ایشیا متاثر ہوگا اور وہاں امن سے پورا خطہ مستفید ہوگا، افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت کرتے ہیں اور افغان مہاجرین کی اپنے وطن باعزت واپسی چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے اور اس کی خود مختاری کا عالمی برادری بھی احترام کرتی ہے، پرامن ہمسائیگی ہی ہمارا ویژن ہے اور پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ مضبوط رابطے چاہتا ہے، افغانستان کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں اور پاکستان ہمیشہ افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی ہم سب کی مشترکہ دشمن ہے اور اس سے نمٹنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، آپریشن ضرب عضب اور قومی ایکشن پلان کے مثبت نتائج ملے اور ہم اپنی سرزمین سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی کا خطاب

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ جمہوری معاشرے میں تشدد پسندی کا کوئی مقام نہیں، ہمارے دشمن افغانستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم خطے کے دیگر ممالک سے مضبوط رابطوں پر کام کررہے ہیں۔

ڈان نیوز اسکرین گریب
ڈان نیوز اسکرین گریب

انہوں نے کہا کہ افغانستان گزشتہ برسوں میں خانہ جنگی کا شکار رہا، عوامی مقامات کو وحشیانہ طور پر نشانہ بنایا گیا، ہماری خواتین پر دوران شاپنگ حملے کیے گئے اور ہمارے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا لیکن ہم افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے پرعزم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تنازع کی پہلی وجہ دہشت گرد گروپس ہیں جو صرف خطے کے لیے نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی بڑا مسئلہ ہیں، ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں دہشت گردوں کے مالی معاونین کا پتہ چلایا جائے، پاکستان میں آپریشن سے بھی دہشت گرد افغانستان آئے تاہم اب سیاسی عمل کا حصہ بننے کے لیے تمام مسلح گروہوں کو ہتھیار پھینکنے ہوں گے۔

افغان صدر نے کہا کہ افغانستان کو سیکیورٹی، معیشت اور روزگار کے مسائل کا سامنا ہے لیکن غربت کا خاتمہ ہمارا سب سے اہم ہدف ہے جبکہ دیگر مسائل کی طرح افغان مہاجرین کی آباد کاری بھی ایک مسئلہ ہے، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی ہے جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان تیزی سے وسط ایشیا سے منسلک ہو رہا ہے، ہم پاکستان کے ساتھ بھی مضبوط رابطوں کے خواہشمند ہیں اور چین کے ساتھ بھی رابطوں کو مربوط بنانے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔

انہوں نے افغانستان کے انفرااسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں انفرااسٹرکچر بہتر ہورہا ہے، افغانستان اپنے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ ٹرانسمیشن لائن کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

اشرف غنی نے بتایا کہ ہمارا ہائی ویز اور ریلوے پروگرام جاری ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ راہداری منصوبے اب تک ابتدائی مراحل میں ہیں، تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ترکمانستان میں جلد تاپی گیس پائپ لائن کا افتتاح کریں گے جبکہ ترکمانستان کے ساتھ بجلی وگیس کی فراہمی کے دیگر معاہدے بھی کیے جائیں گے۔

ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج کا خطاب

ڈان نیوز اسکرین گریب
ڈان نیوز اسکرین گریب

ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ خطے کے ممالک کے درمیان باہمی تعاون، تجارت اور روابط ضروری ہیں، افغانستان کو قبائل کے بجائے دہشت گردوں سے خطرہ ہے اور اقتصادی ترقی کے سوا افغانستان میں امن کا کوئی راستہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی ملکوں کو سیاسی تدبر اور پختگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہندوستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے تعاون پر تیار ہے، علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہندوستان، افغانستان کی مصنوعات کی ترسیل کے لیے سہولت فراہم کر رہا ہے۔

اشرف غنی کی پاکستان آمد

افغان صدر اشرف غنی کانفرنس میں شرکت کے لیے نور خان ایئربیس پہنچے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔

صدر اشرف غنی کو طیارے سے باہر آنے پر 21 توپوں کی سلامی دی گئی، دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے اور مہمان صدر کو مسلح افواج کے چاق و چوبند دستے نے شاندار گارڈ آف آنر بھی پیش کیا۔

یہ پڑھیں : 'دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کا پیغام لائی ہوں'
ڈان نیوز اسکرین گریب
ڈان نیوز اسکرین گریب

نور خان ایئربیس پر وزیر اعظم نواز شریف نے مہمان صدر کا استقبال کیا اور اپنے وفد کا تعارف کرایا، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وفاقی وزراء خواجہ آصف اور وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ بھی مہمان صدر کے استقبال کے لیے موجود تھے.

وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر مشترکہ طور پر کانفرنس کا افتتاح کریں گے۔

واضح رہے کہ آج سے شروع ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں ہندوستان اور ہندوستان کے علاوہ چین، ایران، ترکی، تاجکستان، ازبکستان، آذربائیجان اور جرمنی سمیت 10 ممالک کے وزرائے خارجہ، 17 ڈونرز ممالک کے نمائندگان اور 12 عالمی تنظیمیں بھی شرکت کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ہارٹ ایشیا کانفرنس کا مقصد:'طویل المدتی قیام امن'
فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا مقصد افغانستان میں قیام امن اور پائیدار ترقی کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔

گزشتہ روز مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی سے ملاقاتوں میں افغان مفاہمتی عمل کی بحالی پر بھی بات چیت ہوگی۔

فوٹو: اےایف پی
فوٹو: اےایف پی

خیال رہے کہ ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے گزشتہ روز اسلام آباد پہنچی تھی۔

اس موقع پر میڈیا سے مختصر بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور مشیر خارجہ سے ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری پر بات ہوگی۔

آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Azeem Hassan Dec 09, 2015 09:41pm
ہارٹ آف ایشیا استنبول پراسسیس کی یہ پانچویں کانفرنس ہے اور باوجود کوشش کے ایسی کوئی معلومات حاصل نہیں کر سکا کہ جان سکوں کہ اس سلسلہ میں ہونے والی بے شمار میٹنگز کے نتیجے میں ہونے والے مشترکہ اعلامیوں کے نتیجوں میں افغانستان کو کیا ملایا۔ نارکوٹکس کی ٹریفکنگ کی روک تھام میں کیا کمی رونما ہوئی یا دہشت گردی کو زوال کیوں نہیں آیا۔ افغانستان کی معاشی ترقی کے لئے کون سے ذرائیع دریافت کئے گئے ہیں جو مستقبل میں افغانستان کی خوشحالیکا پیغام لائیں گےہم نے تو اس کانفرنس کے بعد دیکھا کہ داعش وجود میں آئی اور اس کے ساتھ ساتھ ہی آرمڈ انڈسٹری میں روز بروز ترقی ہوئی ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں جو بلاواسطہ طور پر ملٹی نیشنلز کے مفادات کے تحفظ کے لئے سیاست کر رہیں ہیں ، ایک دوسرے کے ملک میں بدامنی پھیلانے کی انتہائی سنجیدہ پالیسیاں بنائی جا رہی ہین ہر طرف فوجی اور مذہبی رحجانات مظبوط تر ہوتے جا رہے ہیں کوئی سیاسی حکومت اپنے سیاسی فیصلے اپنی سیاسی دانش کے بنیادپر نہیں لے سکتی تو پھر یہ کیا ہے سمجھ سے بالا تر ہے