اسلام آباد: وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے پاک فوج کے کچھ افسران کو برطرف کرنے کی پیشرفت کو قابل تحسین اقدام قرار دے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سول اداروں میں بھی احتساب کا طریقہ کار موجود ہوتا ہے جبکہ احتساب سے کسی کو اعتراض نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بد عنوانی کے الزامات پر برطرف ہونے والوں میں جنرلز بھی شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق برطرف افسران میں لیفٹیننٹ جنرل عبید اللہ خٹک اور میجر جنرل اعجاز شاہد شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: بلاتفریق سب کا احتساب ضروری ، آرمی چیف

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام 'دنیا کامران خان کے ساتھ' میں جب پاناما لیکس پر بننے والے کمیشن کے قیام کے حوالے سے صحافی کامران خان نے سوال کیا تو وزیر خزانہ نے کہا کہ ابتدائی طور پر کچھ جج اس کی سربراہی سے معذرت کرچکے ہیں تاہم چند روز میں اس کا اعلان متوقع ہے۔

شریف خاندان کے احتساب کے حوالے سے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم یا ان کی اہلیہ کا نام پاناما میں نہیں تاہم اگر کمیشن نے ان کے بچوں کو پیش ہونے کا حکم دیا تو وہ پیش ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس اور حسن نواز کا 1999 کا انٹرویو

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کی طرح پاناما لیکس کے معاملے کی وجہ سے سرمایہ کاری متاثر ہوئی ہے۔

'وزیراعظم سیاسی و عوامی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دو روز میں فیصلہ کریں گے'

یہ بھی جانیں: تحقیقاتی کمیشن: 5 ریٹائر ججز کا سربراہی سے انکار

اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ پاناما لیکس کی شفاف تحقیقات سے عوام کا حکومت پر اعتماد مزید بڑھے گا اور پاکستان کے قومی خزانے کو جس نے بھی لوٹا ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔

پانامالیکس

واضح رہے کہ دو ہفتے قبل انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور قانونی مدد فراہم کرنے والے ادار موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات میں پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

پاناما لیکس میں بتایا گیا کہ کس طرح دنیا بھر کے امیر اور طاقت ور لوگ اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ

ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟

- کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

- کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

وزیر اعظم کے بچوں کے علاوہ دیگر کئی سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات کا نام بھی ان معلومات میں سامنے آیا ہے۔

یہ معلومات سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر قوم سے سرکاری ٹی وی پر خطاب میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس:وزیراعظم کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان

اس اعلان کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پاناما لیکس پر وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن مسترد کرتے ہوئے بین الاقوامی ماہرین سے آڈٹ کروانے کا مطالبہ کردیا۔

دوسری جانب پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی بھی یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ اگر آف شور کمپنیاں قانونی بھی ہوں تو بھی ان میں رکھا پیسہ ملک کو واپس کیا جائے۔

بعدازاں وزیراعظم نواز شریف طبی معائنے کے سلسلے میں لندن روانہ ہوئے جس کے بعد ملک میں متعدد قیاس آرائیاں کی جانے لگیں۔

تاہم لندن سے ان کی واپسی کے بعد ان تمام قیاس آرائیوں نے دم توڑ گیا۔

وزیراعظم اس حوالے سے عمران خان کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔

اس کے علاوہ جمعرات کو ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہمارا دامن صاف ہے اور ہم ماضی میں بھی کڑے انتقامی احتساب میں سرخرو ہوئے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Saeed Mashaal Bhatti Apr 22, 2016 10:24am
Stop praising the good actions in-fact start following it... Methods of accountability are so complex that sometimes ends do not justify the means.. make the process of accountability transparent and cognizable
ahmaq Apr 22, 2016 01:31pm
what did you understand?۔