صادق خان لندن کے پہلے مسلمان میئر بن پائیں گے؟

اپ ڈیٹ 05 مئ 2016
پاکستانی نژاد صادق خان کو لیبر پارٹی نے مئیر کا امیدوار نامزد کیا–فوٹو: اے ایف پی
پاکستانی نژاد صادق خان کو لیبر پارٹی نے مئیر کا امیدوار نامزد کیا–فوٹو: اے ایف پی

لندن : برطانیہ کی حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کے صادق خان کے لیے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں لندن کے مئیر بننے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کیونکہ اکثر سروے ان کے حق میں آئے ہیں۔

محمد صادق کے انتخاب کی صورت میں وہ یورپی یونین کے دارالحکومت کے پہلے مسلمان میئر ہوں گے جبکہ انتخابی مہم کے دوران صادق خان کو مخالفین کی جانب سے انتہا پسندوں سے تعلقات کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انتخابات سے ایک روز قبل ہونے والے سروے میں پاکستانی نژاد بس ڈرائیور کے بیٹے صادق خان نے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی سے کے نامزد امیدوار کروڑپتی حریف زیک گولڈ اسمتھ سے 12 -14 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔

صادق خان کے کی انتخابی مہم کا آخری حصہ جنوبی لندن میں موجود ایک مارکیٹ میں ختم ہوا جہاں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگ موجود تھے، انہوں نے وہاں موجود دکانداروں اور گاہکوں کے ساتھ پرلطف ہو کر بات کی اور تصویریں بھی بنوائیں۔

حریف جماعت کی جانب انتہا پسندوں کی مذمت نہ کرنے کے الزام پر صادق خان نے کہا کہ مہم کے اس متنازع نوعیت جس میں مجھے بار بار اپنے آپ کا دفاع کرنا پڑے، کی میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔

کنزویٹو پارٹی کی انتخابی مہم پر لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان کا کہنا تھا وہ مایوس ہیں کہ زیک گولڈ اسمتھ منفی اور متنازع الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔

صادق خان کا کہنا تھا کہ اگر وہ جیت گئے تو میئر بن کر ایک بار پھر اس شہر میں اتحاد قائم کردیں گے، جس سے مختلف برادریوں میں اتحاق قائم ہو گا۔

انتخابی مہم میں کشیدگی اس وقت دیکھی گئی جب لیبر پارٹی میں یہود مخالف سوچ رکھنے والوں پر ہنگامہ کھڑا ہوا، جس کے اثرات میں لیبر پارٹی کی قانون ساز اور لندن کے سابق مئیر کین لونگ اسٹون کو پارٹی سے معطل کردیا گیا تھا ۔

ہاؤس آف کامنز (ایوان زیریں) میں وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربائن پر اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگایا اور ساتھ ہی صادق خان کو انتہا پسندوں کا 'ہمدرد' قرار دیا۔

کوربائن کی جانب سے دیئے گئے تبصرے، جس میں انہوں نے 'فلسطین حماس تحریک' اور 'لبنان کی حزب اللہ کی فوج' کو ' دوست' قرار دیا تھا، کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے لیبر پارٹی کے اوپر الزام لگایا تھا کہ 'یہ پارٹی عام لوگوں پر انتہا پسندوں کو فوقیت دیتی ہے'۔

کوربائن نے تمام الزامات کو مسترد کیا اور جوابی وار کرتے ہوئے کنزرویٹو پارٹی کو 'منظم طریقے سے بگاڑ پیدا کرنے والا' کہا اور وزیراعظم سے کہا کہ وہ اپنی پارٹی میں نسل پرستی کو ختم کریں جو کنزرویٹو پارٹی کے ہر رکن میں پائی جاتی ہے۔

ان الزامات پر رائے پوچھنے کے لیے ایک دکاندار نے صادق خان سے سوال پوچھا تو انہوں نے ازراہِ مذاق کہا کہ وہ مجھ سے جلتے ہیں اور اس کا سب سے اچھا جواب یہی ہے کہ میں جیت جائوں۔

صادق خان نے کوربائن پر اس بات پر زور دیا ہے کہ لیبر پارٹی میں موجود 'یہود مخالف' سوچ کے خلاف وہ ایکشن لیں،اور انہیں اپنے آپ کو ایسی قطار سے ہٹانا ہے جس میں نہ صرف ان کی اپنی ساکھ کو خطرہ ہے بلکہ ان کیلئے بھی جو علاقائی انتخابات میں لیبر پارٹی کی جانب سے کھڑے ہو رہے ہیں۔

حال ہی میں صادق خان کے خلاف ایک اور تنازع سامنے آیا ہے جس میں 2009 میں دیے گئے ان کے انٹرویو کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں صادق خان نے کہا تھا کہ حکومت مسلمانوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے مگر وہ اپنے 'انکل ٹامز' پر توجہ نہیں دے پا رہی۔

'انکل ٹام' کی یہ اصطلاح کالے امریکیوں کو گورے لوگوں کا غلام بتانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔

آئی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے صادق خان نے اپنے بیان پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میں یہ جملہ استعمال کرنے پر پشیمان ہوں، میں غلط تھا اور مجھے اس کا پچھتاوا بھی ہے۔

ان تمام الزامات کے باوجود صادق خان مئیر کی کرسی سنبھالنے کیلئے مضبوط امیدوار نظر آرہے ہیں، جس سے وہ لندن کی ٹرانسپورٹ، پولیس، ہاؤسنگ اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔

ایوننگ نیوز پیپر کی جانب سے کیے گئے سروے میں عوام کی 35 فیصد رائے صادق خان جبکہ 26 فیصد زیک گولڈ سمتھ کے حق میں تھی۔

برطانیہ کے ایک ادارے 'کام رس' کے ذریعے لندن کے آئی ٹی وی نیوز اور ایل بی سی ریڈیو نے عوام میں مقبولیت کیلئے سروے کروایا جس میں صادق خان کو 45 فیصد اور زیک گولڈ اسمتھ کو 36 فیصد عوامی حمایت حاصل کرسکے، جبکہ دوسری دفعہ کیے گئے سروے میں صادق خان کو 56 فیصد اور زیک گولڈ اسمتھ نے 44 فیصد عوامی تائید حاصل ہو سکی۔

45 سالہ صادق خان نے حکومت کی جانب سے بنائے گئے سرکاری گھر میں پرورش پائی جبکہ وزیر بننے سے قبل انہوں نے انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر فرائض سرانجام دیں۔

جبکہ صادق خان کے حریف زیک گولڈ اسمتھ، انتہائی امیر جیمس گولڈ اسمتھ کے بیٹے ہیں، اور ساتھ ہی ماہرِ ماحولیات اور کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں۔

صادق خان نے کہا ' میں لندن کا رہائشی ہو، برطانوی ہوں، اسلامی عقیدے سے میراتعلق ہے، اور مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے'، ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا تعلق پاکستان کی ثقافت سے ہے، وہ ایک باپ ہیں، ایک شوہر اور بہت عرصے سے فٹبال ٹیم 'لیورپول' کےمداح بھی ہیں۔

لندن کے میئر کے امیدوار صادق خان نے کے مطابق اس شہر کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ کا کسی بھی عقیدے سے تعلق ہو یا نہ ہو، آپ لندن سے تعلق بنا سکتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو صرف برداشت نہیں کرتے بلکہ عزت دیتے ہیں گلے لگاتے ہیں اور اسی میں خوش رہتے ہیں، یہی لندن کی بہترین باتوں میں اس کو شمار کیا جاتا ہے۔

مددگار

مارکیٹ میں اپنے دورے کے دوران انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کراوئی کہ لندن میں گھروں کی بڑھتی قیمت کے مسئلے سے نمٹا جائے گا، جس کا سامنا اکثر مقامی افراد کو ہے۔

صادق خان کا کہنا تھا کہ وہ ایک کونسل اسٹیٹ سے اٹھ کر ایک وکیل بنے، پھر ایک کامیاب بزنس مین بنے اور بعدازاں کابینہ کے وزیر کا عہدہ پایا اور آج وہ میئر کیلئے کھڑا ہوئے ہیں، کتنے مقامی افراد کو آج تک ایسے مواقع نصیب ہوئے ہیں؟۔

انہوں نے کہا کہ وہ میئر کیلئے اس لیےکھڑے ہیں کہ بہت سارے لندن کے رہائشی ایسے ہیں جنہیں کوئی ایسا مددگار نصیب نہیں ہوتا جو مجھے نصیب ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ لندن میں سستے گھروں کیلئے میرے پاس منصوبہ موجود ہے جس سے گھروں کی قیمت قوتِ خرید میں آجائے گی۔

صادق خان نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ایسی صورتحال سے نکلنا ہوگا جس میں ایسے گھر بنے ہوئے ہوں جو لندن کے افراد ہی نہ خرید سکیں، یا پھر گھر بنا کر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بیچ دیا جائے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں