کراچی: سانحہ صفورہ اور مشہور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل سمیت دیگر کیسز میں ملوث ہونے کے باعث فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت پانے والے سعد عزیز نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے اراکین کو بتایا کہ وہ یمن کی فرقہ وارانہ جنگ سے 'متاثر' تھے۔

سعد نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی برادری کی بس پر فائرنگ اور قتل عام سے قبل انھوں نے ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں حوثی باغیوں کو یمن میں 'خواتین اور بچوں' کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:سانحہ صفورا: پانچوں مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ جاری

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق سعد عزیز کا کہنا تھا کہ ایک عسکریت پسند عبداللہ یوسف نے انھیں مذکورہ ویڈیو دیکھنے کو کہا تھا۔

واقعے کی تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے سعد عزیز نے بتایا کہ 'طاہر منہاس، عبداللہ منصوری اور عمر عرف حفیظ نے مسافروں کو قتل کرنا شروع کیا جبکہ وہ کیمرے کے ذریعے ان کی ویڈیو بنا رہے تھے، جو اُس وقت ان کے ہاتھ سے گر گیا جب بس کو ایک جھٹکا لگا۔' سعد عزیز نے ڈرائیور کو قتل کرنے کا 'اعتراف' کیا، تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے خواتین اور بچوں کو قتل نہیں کیا۔

سعد نے اعتراف کیا کہ اس نے اور دیگر ملزمان نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں سبین محمود کو قتل کیا کیونکہ وہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف ' غلیظ زبان' استعمال کرتی تھیں۔

مزید پڑھیں: ’سبین مولاناعزیزکے خلاف مہم پر نشانہ بنی‘

جے آئی ٹی رہورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سعد نے 2005 تک گلشن اقابل میں واقع بیکن ہاؤس اسکول سے او لیول کی تعلیم حاصل کی، لیکن اسی اسکول کی مختلف برانچوں پر 2 مرتبہ حملہ کیا۔

سعد عرف ٹن ٹن عرف جون عسکریت پسندی کی جانب اُس وقت راغب ہوا، جب اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں شمولیت اختیار کی۔

رپورٹ کے مطابق '2009 میں سعد نے 4 ہفتوں کی انٹرن شپ کے لیے یونی لیور کمپنی جوائن کی، جہاں ان کی ملاقات ڈیمانڈ پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے ملازم علی رحمٰن سے ہوئی۔'

علی رحمٰن عمرہ کی ادائیگی کے بعد سے 'کچھ مذہبی' ہوچکا تھا، یہ علی رحمٰن ہی تھا جس نے سعد عزیز کی برین واشنگ کی اور اسے جہاد کی طرف راغب کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'بڑے دہشت گرد حملوں میں تعلیم یافتہ عسکریت پسند ملوث'

اگلے برس علی رحمٰن نے سعد کو حارث سے متعارف کروایا جو جماعت اسلامی سے منسلک رہ چکا تھا اور جس نے بعد میں القاعدہ (احمد فاروق گروپ) میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ 2011 میں آئی بی اے کراچی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے تک سعد انٹرنیٹ کے ذریعے حارث سے رابطے میں رہا۔

سعد عزیز نے لائسیم (Lyceum) کلفٹن سے اے لیول کیا، اسے حارث نے 2011 میں میران شاہ میں عسکرت پسندی کی تربیت کے لیے بھیجا۔ جے آئی ٹی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعد نے اپنے والدین کو یہ بتایا تھا کہ وہ 'افغانستان میں ٹریننگ' کے لیے جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعد نے دیگر '8 یا 10 لڑکوں' کے ساتھ 25 دنوں میں تربیت حاصل کی جن میں سے اکثر کو واپس بھیج دیا گیا، تاہم سعد اور دیگر 3 لڑکوں کو ایک استاد احمد فاروق نے رکنے کا کہا، جب اُس سے اُس کی تعلیم کے بارے میں پوچھا گیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 'سارھے 4 ماہ بعد سعد واپس کراچی آیا اور اپنا ریسٹورنٹ کا کاروبار سنبھال لیا'، سعد کی شادی 2012 میں ہوئی، وہ حارث اور علی سے بھی رابطے میں رہا اور اس نے انگریزی زبان میں جہاد پر مضامین لکھنے شروع کردیئے۔

اس دوران علی نے سعد کو بتایا کہ گروپ کے لڑکے حارث کی 'سرگرمیوں' سے 'مطمئن' نہیں تھے، جس کے بعد علی نے سعد کی ملاقات عمر عرف حیدر عباس عرف عاکف سے کروائی، جس نے سعد کو اپنے ساتھ شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے بتایا کہ 'ان کے پاس بہت کام ہے'۔

دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اسکائپ، واٹس ایپ اور وائبر کے ذریعے رابطے میں رہنے کا فیصلہ کیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق سعد نے حارث کو عمر سے ملاقات سے متعلق کچھ نہیں بتایا اور6 ماہ تک عمر سے رابطے میں رہا اور معمول کے مطابق حارث کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کرتا رہا'۔

آخر کار 2013 میں عمر نے سعد کی ملاقات طاہر منہاس سے کروائی، اگلے برس سعد، طاہر اور عمر کی ملاقات حیدرآباد میں ہوئی، جہاں انھوں نے عامرکے ساتھ مل کر ایک پولیس موبائل پر حملہ کیا اور3 پولیس اہلکاروں کو قتل کردیا۔

داعش سے متاثر

سعد نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ جب داعش نے 2014 میں عراق میں خلافت کا اعلان کیا تھا تو طاہر منہاس، حیدر عباس اور وہ خود اس نئے اسلامی نظام سے متاثر ہوئے کیونکہ القاعدہ 'کمزور' ہوچکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ صفورہ کے ملزمان 'داعش' سے متاثر

بعد ازاں انھوں نے داعش میں شولیت کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئے۔

سعد اوردیگر ملزمان کو راجا عمر خطاب کی سربراہی میں محکمہ انسداد دہشت گردی کی ٹیم نے گرفتار کیا تھا۔

یہ خبر 13 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Imran May 13, 2016 02:21pm
یہ پڑھے لکھوں کا حال ہے۔
زیدی May 13, 2016 03:34pm
پڑھے لکھے، جاھل جو ایک ویڈیو سے قاتل بن گئے قابل توجہ عمرے سے واپسی پر کیسے مذھبی بنا علی رحمان ! حارث کا سابقہ جما عت اسلامی .
Sehrish May 13, 2016 06:27pm
Ye parhy likhu ka haal nahi..... us soch ka haal hy jo bachpan me e dimagh me bhar d jati hy....islamization and jehad.... aur koi is se hatna b chahe to hmary log dosri rae bardasht nahi kr paty........ aur insan. Hmesha social approval chahta hy... there are few who can tolerate the rejection of society.