پشاور: موسیقی کا آلہ بنجو بجانے والے استاد عقل میر کا تعلق خیبر ایجنسی کی تحصیل لانڈی کوتل سے ہے جنہیں 'فری اسپیچ تھراپی' ٹریٹمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔

پیشے کے اعتبار سے ٹرانسپورٹر، استاد عقل میر کو چند سال قبل دماغی فالج کی بیماری کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ان کی بول چال متاثر ہوگئی، انہوں نے علاج پر ایک لاکھ روپے کرچ کیے جس سے ان کے ہاتھ تو اس قابل ہوگئے کہ وہ دوبارہ بنجو بجا سکیں تاہم وہ اب بھی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

اس وقت صرف ان کے گھر والے اور چند قریبی دوست ہی ان کی بات سمجھ سکتے ہیں تاہم پہلے کی طرح وہ بنجو کے ساز کے ساتھ گانا نہیں گا سکتے۔

استاد عقل میر کے خاندان کے افراد، دوست اور مداحوں نے سینیٹر تاج محمد خان آفریدی اور ایم این اے حاجی شاہ جی گل آفریدی سے ان کی فری سپیچ تھراپی ٹریٹمنٹ کے انتظامات کی اپیل کی ہے۔

میوزک کے مقامی ماہر وزیر رحمٰن کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں رباب بجانے والے اور لوک گانے گانے والے کئی گلوکار موجود ہیں لیکن بنجو اور چترالی بجانے والے بہت کم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ استاد عقل میر بنجو بجانے والے واحد فرد ہیں جو اسے بجانے کے ساتھ گلوکاری بھی کرسکتے تھے۔

رحمٰن کا کہنا تھا ’بنجو کو بخوبی بجانے کے علاوہ استاد عقل میر اپنی خوبصورت آواز میں کئی پشتو شاعروں کے کلاسیکی اور ماڈرن گانے بھی گا سکتے تھے‘۔

استاد عقل میر کے ایک مداح لقمان خان شنواری کے مطابق انہوں نے اپنے عوامی نمائندوں سے درخواست کی ہے کہ وہ استاد کی قوت گویائی کو واپس لانے کے لیے ان کی مالی مدد کریں۔

انہوں نے کہا کہ استاد عقل میر ان کا اثاثہ ہیں اور اس وقت ان کی مدد کرنی چاہیے۔

شنواری کے مطابق وہ اب بھی بیمار ہونے کے باوجود کبھی کبھار پرفارم کرتے ہیں تاہم ان کو مکمل علاج کی ضرورت ہے جس سے ان کی خوبصورت آواز واپس لائی جاسکے۔

60 سالہ بنجو کے ماہر استاد عقل میر نے ٹوٹے ہوئے الفاظ میں کہنا تھا کہ ’میرے پاس جو کچھ بھی تھا میں نے اپنے علاج پر خرچ کردیا تاہم ڈاکٹروں کے مطابق میرے علاج پر بڑی لاگت آئے گی۔ میں نے اپنے بولنے کی صلاحیت کے ساتھ اپنی گلوکاری کا ہنر بھی کھو دیا ہے، اب میں صرف بنجو بجا سکتا ہوں لیکن کچھ گا نہیں سکتا، میں ہمیشہ ہی بغیر کسی فیس کے لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے لوک گانے گاتا اور بنجو بجاتا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان کو پہنچانا ان کا پیشہ تھا تاہم شائقین کو اپنی آواز سے بلندی پر لے جانا ان کا جنون۔

استاد عقل میر کا مزید کہنا تھا کہ انہیں ہمیشہ سے ہی گانے اور بنجو بجانے کا شوق تھا، وہ گاؤں کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے گئے لیکن خاندان کے حالات کی وجہ سے صرف پرائمری کی تعلیم ہی حاصل کرسکے۔

12 سال کی عمر میں استاد عقل میر شادیوں کی تقریبات میں شوق سے جایا کرتے تھے جہاں مقامی پشتو لوک گلوکار پرفارم کرتے اور موسیقی کے آلات رباب اور منگے بجاتے تھے، انہوں نے 2 سال میں مقامی آرٹسٹوں سے بنجو بجانے کی تعلیم حاصل کی۔

استاد عقل میر نے ٹرانسپورٹ کو پیشے کے طور پر منتخب کیا، البتہ ان کی زرخیز سوچ نے انہیں میوزک کی دنیا تک پہنچا دیا جہاں وہ اپنی محنت سے لوگوں کو محظوظ کرنے لگے، وہ گزشتہ تین دہائیوں سے بنجو بجا رہے ہیں۔

استاد عقل نے کہا کہ ’بنجو میرے دوست کی طرح ہے، شروعات میں گھر والوں نے پابندیاں لگائیں تاہم میں نے انہیں قائل کرلیا اور درخواست کی کہ مجھے کبھی کبھار اپنے دوستوں کے لیے بغیر کسی فیس کے بنجو بجانے کی اجازت دیں، میرے والد تو مجھ سے خوش نہیں تھے لیکن میرے تایا نے مجھے خفیہ طور پر اجازت دی۔'

ان کے قریبی ساتھی شہزادہ خان کا کہنا ہے کہ استاد عقل میر نے خود سے کبھی کسی سے مالی امداد کی درخواست نہیں۔ جب انہیں کئی سال پہلے فالج ہوا تو وہ اپنے ابتدائی طبی علاج کے اخراجات اٹھا سکتے تھے، مگر اب انہوں نے اپنا سب کچھ علاج میں خرچ کردیا اور اب انہیں فری سپیچ تھراپی کروانے کی ضرورت ہے‘۔

یہ مضمون 3 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوا

تبصرے (1) بند ہیں

Khan Aug 04, 2016 03:54pm
السلام علیکم مدد تو دور کی بات، ہمارے اس بنجو استاد پر کسی نے تبصرہ تک نہیں کیا ۔ایسے کیسے چلے گا۔خیرخواہ