اولمپک ایتھلیٹس تمغے چباتے کیوں ہیں؟

اپ ڈیٹ 16 اگست 2016
— اے ایف پی فوٹو
— اے ایف پی فوٹو

اگر آپ اولمپکس مقابلے دیکھنے کے شوقین ہیں تو آپ نے ہوسکتا ہے اس بات کو نوٹ کیا ہو کہ بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کرنے والے کھلاڑی اپنے سونے یا چاندی کے تمغوں کو چباتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

پرانے زمانے میں سونے کی پہچان کے لیے اسے چبایا جاتا تھا مگر کیا ان ایتھلیٹس کا ماننا ہے کہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی ان کے ساتھ دھوکا کرنے والی ہے؟ کیا کسی کو لگتا ہے کہ وہ میڈل کی جگہ چاکلیٹ کو چبا رہا ہے؟

ایسا درحقیقت کسی کے احکامات کے نتیجے میں ہوتا ہے اور وہ ہیں فوٹوگرافرز۔

جی ہاں جب اولمپک مقابلوں میں میڈل جیتنے والے ایتھلیٹ تصویر کھنچوا رہے ہوتے ہیں تو وہاں جمع فوٹوگرافرز ان سے مطالبہ کرتے ہیں سیدھا کھڑے ہوکر محض مسکرانے کے بجائے کچھ الگ کریں۔

چونکہ ان کے ہاتھ میں کچھ اور تو ہوتا نہیں لہٰذا کامیاب کھلاڑی اپنے میڈلز کو ہی منہ میں ڈال کر چبانے کی اداکاری کر کے فوٹوگرافرز کو مطمئن کردیتے ہیں۔

اگر آپ کو کبھی یہ خیال آیا ہو کہ ایسا کرنے کے نتیجے میں کبھی کسی کا دانت تو نہیں ٹوٹ گیا تو اس کا جواب ہے، ہاں ایسا ہوچکا ہے، تاہم گرمائی کی بجائے سرمائی اولمپکس میں۔

2010 میں جرمنی کے ڈیوڈ مولر کا دانت چاندی کے میڈل کو چبانے کے دوران ٹوٹ گیا۔

جیسا بتایا جاچکا ہے کہ سونے کو چبا کر اس کے اصلی ہونے کی شناخت کی جاسکتی ہے، یعنی اصل سونے میں دانتوں کے چبانے کا ہلکا سا نشان آجاتا ہے۔

مگر اولمپک ایتھلیٹس کو یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ ان کا گولڈ میڈل کا زیادہ تر حصہ چاندی اور تانبے پر مشتمل ہوتا ہے۔

اگر ان کا میڈل مکمل طور پر سونے کا ہو تو جتنے تمغے تقسیم ہوتے ہیں اس کے لیے آئی او سی کو 17 ملین ڈالرز خرچ کرنا پڑ جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں