اسلام آباد: 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں میں معالی معاونت کرنے والے مبینہ سہولت کار کی گرفتاری ایک اہم پیش رفت تصور کی جارہی ہے تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) میں اس کیس کی سماعت 2009 سے التوا کا شکار ہے۔

حال ہی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مبینہ ملزم سفیان ظفر کو گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد ایجنسی کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

عدالت میں اس کیس کی سماعت 1997 کے انسداد دہشت گردی قانون کی سیکشن 21-M کے تحت کی گئی، جس میں ملزم ظفر کے علاوہ جرم میں ملوث دیگر 7 ملزمان کو بھی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، تفتیش کے دوران ملزمان نے مبینہ طور پر اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا۔

استغاثہ نے عدالت کے سامنے 68 پاکستانی گواہوں کے بیانات اور ثبوت پیش کیے، اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے استغاثہ نے عدالت سے 24 ہندوستانی گواہوں کے بیانات قلم بند کرانے کی بھی استدعا کی۔

ملزم ظفر کے مقدمے کی سماعت عدالت میں چالان جمع ہونے کے بعد کی جائے گی، جس کے بعد عدالت ظفر سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد کرے گی، لہذا استغاثہ تمام 68 پاکستانی گواہان کو عدالت میں دوبارہ پیش کرنے کا پابند ہے۔

وکیلِ دفاع راجہ عباس کے مطابق اگر 7 ملزمان کے خلاف مقدمے کی دوبارہ سماعت کی گئی تو ممبئی حملہ کیس 2009 کی اپنی پرانی حیثیت پر آجائے گا۔

مزید پڑھیں:ممبئی حملہ کیس کا مرکزی ملزم نظر بند

ان کا مزید کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت 25 نومبر 2011 کو 7 ملزمان پر فرد جرم عائد کرچکی ہے، جس میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، جس کے بعد استغاثہ نے ملزمان کے خلاف شواہد جمع کرنے کا آغاز کرتے ہوئے گواہان کو عدالت کے سامنے پیش کیا تھا۔

وکیلِ دفاع راجہ عباسی کا کہنا ہے کہ 7 سال بعد بھی مقدمہ جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں موجود ہے، اس میں کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جبکہ استغاثہ ان ہی 7 ملزمان کو آٹھویں سال بھی عدالت میں پیش کرکے وہی عمل دہرائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طویل عرصے جیل میں قید رہنے کے بعد ملزمان عدالت میں درخواست ضمانت دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں، تاہم استغاثہ کے پاس ملزم ظفر عباس سمیت 7 ملزمان کا مقدمہ چلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

ملزم سفیان ظفر ضلع گجرانوالہ کا رہائشی ہے، جسے 21 مقدموں میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے، عدالتی دستاویزات کے مطابق ملزم پر مبینہ طور ممبئی حملے کے لیے فنڈز جمع کرنے کا الزام ہے، جس میں اس کی معاونت مقدمے میں قید ملزم جمیل احمد اور محمد یونس اور اشتہاری ملزم محمد عثمان ضیاء، مختار احمد، عباس ناصر اور جاوید اقبال نے کی۔

یہ بھی پڑھیں : ممبئی حملہ کیس: 7 پاکستانیوں کا مقدمہ تعطل کا شکار

دستاویزات کے مطابق ممبئی حملوں کے لیے ملزم ظفر نے شریک ملزم شاہد جمیل ریاض کے ساتھ 39 لاکھ 80 ہزار روپے کی رقم جمع کی، معالی معاونت کے لیے جمع کی جانے والی رقم کراچی کے دو مختلف نجی بینکوں کے ذریعے منتقل کی گئیں۔

رقم کو منتقل کرنے کے لیے کراچی کے نجی بینک ایم سی بی کی ڈرگ روڈ برانچ کے اکاؤنٹ نمبر 2-2338 اور الائیڈ بینک کی ڈرگ روڈ کالونی برانچ کے اکاؤنٹ نمبر 0-2464 کا انتخاب کیا گیا۔

ملزم ظفر کی گرفتاری دیگر 7 ملزمان کے ٹرائل کے دوران ہی عمل میں آگئی تھی، لیکن پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے درمیان 24 ہندوستانی گواہوں سے متعلق بات چیت تک اسے سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

رواں سال جنوری میں پاکستانی حکام کی جانب سے ہندوستانی حکومت سے7 ملزمان سمیت حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمٰن لکھوی کے خلاف گواہی دینے کے لیے 24 گواہان کو پاکستان کے حوالے کرنے کو کہا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:ممبئی حملہ کیس میں حکومت پراسیکیوٹر ڈھونڈنے میں کامیاب

ذکی الرحمٰن لکھوی اور دیگر ملزمان عبدالواجد، مظہر اقبال، حماد امین، شاہد جمیل ریاض، جمیل احمد اور یونس انجم کا مقدمہ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

7 ماہ قبل انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے تمام 68 پاکستانیوں کے بیانات قلم بند کیے، جس کے بعد استغاثہ کی جانب سے عدالت میں ایک اور درخواست دائر کی گئی، جس میں حملے میں زندہ بچ جانے والوں کی میڈیکل رپورٹ سمیت حملے کا نشانہ بننے والوں اور دہشت گردوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پیش کی گئی۔

ماہر قانون احسن الدین شیخ کا کہنا ہے کہ مقدمے کی سماعت اے ٹی اے کے قانون کے تحت کی جانی چاہیئے تھی، جس کے مطابق ملزمان کی مشترکہ تحقیقات کی جاتی ہیں اور جس سے مقدمے پر بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مقدمے کے حوالے سے سینئر پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ استغاثہ عدالت سے ملزم ظفر کا علیحدہ مقدمہ چلانے کی استدعا کر سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملزم ظفر پر اپنے بھائی کو بینک اکاؤنٹ کے ذریعے 14 ہزار روپے منتقل کرنے کا الزام بھی ہے جو اس مقدمے کا شریک ملزم ہے۔

یہ خبر 22 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں