اسلام آباد: ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث 7 پاکستانی ملزمان کے خلاف شروع ہونے والا مقدمہ تاحال تعطل کا شکار ہے، کیوں کہ پاکستان اور ہندوستان حکومت کےدرمیان اختلاف کی وجہ سے 24 ہندوستانی گواہوں کےبیانات لینے کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہورہی۔

یاد رہے کہ رواں برس جنوری میں حکومت پاکستان نے ہندوستان سے کہا تھا کہ وہ 24 گواہوں کو ممبئی حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ سمیت 7 مشتبہ ملزمان کے خلاف بیان دینے کے لیے بھیجے۔

یہ بھی پڑھیں: ممبئی حملہ کیس کےمرکزی ملزم کی ضمانت

ممبئی حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمان لکھوی اور دیگر ملزمان عبدالواجد، مظہر اقبال، حماد امین صادق، شاہد جمیل ریاض، جمیل احمد اور یونس انجم پر 2009 سے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں مقدمہ چل رہا ہے۔

24 گواہان کے بیانات قلمبند کرنے کے حوالے سے پاکستانی درخواست کا ہندوستان کی جانب سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

رواں برس جنوری میں استغاثہ نے اے ٹی سی میں درخواست دائر کی کہ وہ اس مقدمے میں ہندوستانی گواہوں کے بیانات قلمبند کرنا چاہتی ہے جس کے بعد حکومت نے ہندوستانی حکومت کو خط لکھا تھا۔

استغاثہ نے اس مقدمے کے حوالے سے تمام 68 پاکستانی گواہوں کی شہادت 7 ماہ قبل ہی ریکارڈ کرلی تھی اور ایک ایسے وقت میں جب اے ٹی سی اپنی کارروائی مکمل کرنے ہی والی تھی استغاثہ نے ممبئی حملے میں زندہ بچ جانے والوں، ہلاک ہونے والوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز اور عینی شاہدین کو پیش کرنے کی درخواست دائر کردی۔

مزید پڑھیں: اجمل قصاب کو پھانسی دیدی گئی

2012 اور 2013 میں ہندوستانی حکومت نے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کرانے کے لیے کمیشن قائم کیا تھا، ان گواہوں میں اجمل قصاب کا اقبالی بیان ریکارڈ کرنے والی خاتون مجسٹریٹ آر وی ساونت واگھولے، ممبئی حملے تحقیقات کے چیف انویسٹی گیشن آفیسر رمیش مہالے اور حملوں کے دوران ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز گنیش دھن راج اور ڈاکٹر چنٹامن موہیٹے شامل ہیں۔

پراسیکیوشن ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی استغاثہ کی ٹیم اور وزارت داخلہ کے حکام کی ہندوستانی وفد سے ملاقات کے دوران پاکستانی پینل نے درخواست کی تھی کہ انہیں ہندوستانی پراسیکیوشن کے گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کی اجازت دی جائے۔

ہندوستانی وفد میں جوائنٹ سیکریٹری، وزارت داخلہ کے ڈائریکٹر جنرل اور چیف پراسیکیوٹر شامل تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں ہندوستانی وزارت خارجہ نے پاکستان کو کچھ اضافی شواہد فراہم کیے تھے جو ملزمان کے خلاف استعمال ہوسکتے تھے۔

اس کے بعد استغاثہ نے اے ٹی سی میں درخواست دائر کردی کہ وہ ہندوستانی گواہوں کے بیانات قلمبند کرنا چاہتی ہے۔

ایک پراسیکیوٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب گیند ہندوستان کے کورٹ میں ہے اور ہم گواہوں کے حوالے سے ہندوستان کے جواب کے منتظر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ممبئی حملہ کیس میں حکومت پراسیکیوٹر ڈھونڈنے میں کامیاب

ممبئی حملہ کیس کی آخری سماعت اے ٹی سی میں 29 جون کو ہوئی تھی جس میں استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ تاحال ہندوستان کے جواب کی منتظر ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جب تک ہندوستانی حکومت گواہوں تک رسائی نہیں دیتی تب تک استغاثہ کے لیے مقدمے کو ثابت کرنا نہایت مشکل ہوگا اور اس کا فائدہ بلاشبہ ملزمان کو پہنچے گا۔

ادھر ہندوستانی سفارتخانے کے ایک سینئر عہدے دار کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ برس ستمبر میں حکومت پاکستان نے ہندوستانی وزارت خارجہ کو خط لکھا تھا جو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے کی ایک کوشش تھی۔

انہوں نے کہا کہ خط عمومی نوعیت کا تھا اور اس میں ممبئی حملوں سمیت بہت سے معاملات پر بات کی گئی تھی اور ہندوستانی سیکریٹری خارجہ نے فوری طور پر اس خط کا جواب دے دیا تھا۔

عہدے دار نے کہا کہ ممبئی حملوں کے گواہوں کو طلب کرنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی باضابطہ خط نہیں لکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب پاکستان باقاعدہ قانونی طریقے سے درخواست دے گا، تب ہی ہندوستانی حکومت اس تجویز پر غور کرے گی۔

اس حوالے سے جب دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کردیا۔

تاہم وزارت خارجہ امور کے ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ ہندوستانی حکومت نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ گواہوں کی طلبی کے حوالے سے لکھے گئے خط کا فارمیٹ درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس بات کی نشاندہی کرتے تو ہم انہیں مطلوبہ فارمیٹ کے حساب سے دوبارہ خط لکھ دیتے۔

یہ خبر 11 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں